کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 287
(الف) محمد بن سیرین بصری:…… آپ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام ہیں، آپ نے حضرت ابن عباس، حضرت ابن عمر، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہم اور بے شمار لوگوں سے حدیث سنی۔[1] حبیب بن شہید روایت کرتے ہیں: ’’میں عمرو بن دینار کے پاس بیٹھا تھا وہ فرماتے ہیں: ’’اللہ کی قسم! میں نے طاؤوس جیسا آدمی نہیں دیکھا۔‘‘ اسی مجلس میں ایوب سختیانی بھی بیٹھے تھے، یہ سن کر وہ کہنے لگے: ’’اگر آپ نے ابن سیرین کو دیکھا ہوتا تو یہ نہ کہتے۔‘‘[2] عثمان البتی کہتے ہیں: ’’بصرہ میں ابن سیرین سے زیادہ قضاء کو جاننے والا اور کوئی نہ تھا۔‘‘[3] حسن بصری رحمہ اللہ آپ کو دوسروں پر ترجیح دیتے تھے۔ ثابت بنانی سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: ’’جن دنوں حسن بصری حجاج کے ظلم کے خوف سے روپوشی کی زندگی گزار رہے تھے، ان کی ایک بیٹی کا انتقال ہوگیا، رجاء نے آکر بیٹی کی وفات کی اطلاع دی اور جنازہ پڑھانے کو بھی کہا۔ بیٹی کے مرنے کی خبر سن کر آپ رونے لگے حتیٰ کہ آپ کی آواز بلند ہوگئی۔ پھر آپ نے کہا کہ ابن سیرین سے کہو کہ وہ میری بیٹی کی نماز جنازہ پڑھا دیں۔‘‘ حسن بصری رحمہ اللہ کی طرف ابن سیرین رحمہ اللہ کی عظمت کا یہ عملی اقرار تھا کہ وہ ابن سیرین کے برابر کسی کو نہیں سمجھتے تھے۔[4] ابن سیرین رحمہ اللہ ایک دن چھوڑ کر روزہ رکھتے تھے۔[5] آپ نے خوابوں کی تعبیر بیان کرنے میں بے مثال شہرت پائی اور اس باب میں کوئی آپ کا ثانی نہیں تھا۔ علامہ ذہبی فرماتے ہیں: ’’ابن سیرین سے خوابوں کی تعبیر میں نہایت حیرت انگیز باتیں منقول ہیں اور اس فن میں آپ کو ربانی تائید حاصل تھی۔‘‘[6]ابن سیرین بڑے خوش لباس تھے، قیمتی پوشاکیں پہنتے، نفیس چادریں اوڑھتے اور دیدہ زیب عمامے باندھتے تھے۔[7] ابن سیرین بڑے خوش طبع بذلہ سنج اور ظریف تھے۔[8] اپنی والدہ کے ساتھ بے حد حسن سلوک کرتے تھے۔ آپ کی بیٹی حفصہ بیان کرتی ہیں، آپ کی والدہ حجازیہ تھیں، انہیں رنگین کپڑے بے حد پسند تھے، اس لیے ابا جان ان کے لیے بے حد نفیس اور نرم کپڑے خریدتے تھے۔ عید کے موقع پر والدہ کو کپڑے رنگ کروا دیتے، کبھی ان سے اونچی آواز میں بات نہ کرتے اور بات کرتے وقت بے حد جھک کر بات کرتے تھے۔[9] ابن عون سے روایت ہے: اگر کوئی ابن سیرین کو اس وقت دیکھ لیتا جب وہ اپنی والدہ کے پاس ہوتے تھے تو انہیں پہچان نہ سکتا کہ وہ والدہ کے ساتھ اتنی پست آواز سے بات کرتے تھے جیسے بیماریوں نے انہیں نڈھال کر ڈالا ہو۔[10]
[1] سیر اعلام النبلاء: ۴/ ۶۰۶۔ [2] ایضًا : ۴/ ۶۰۸۔ [3] ایضًا [4] ایضًا : ۴/ ۶۱۰۔ [5] ایضًا : ۴/ ۶۱۵۔ [6] ایضًا : ۴/ ۶۱۸۔ [7] ایضًا : ۴/ ۶۱۹۔ [8] ایضًا : ۴/ ۶۱۳۔ [9] ایضًا : ۴/ ۶۱۹۔ [10] ایضًا : ۴/ ۶۲۰۔