کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 286
کمزور صیغہ ہے، جس سے یقین و اذعان اور ثبوت کی دولت حاصل نہیں ہوتی چنانچہ ابو حاتم رازی، ابن حبان، عجلی، ابن مندہ اور ابن عبدالبر جیسے ائمہ جرح و تعدیل نے عکرمہ کا بھر پور دفاع کیا ہے اور انہیں اس تہمت سے بری قرار دیا ہے۔ ابن حجر ’’فتح الباری‘‘ کے مقدمہ میں ان اقوال کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں: ’’عکرمہ سے کوئی (نظریاتی یا اعتقادی) بدعت ثابت نہیں۔‘‘ [1]اور امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ہمارے اصحاب میں سے ایسا کوئی بھی نہیں جو عکرمہ سے احتجاج واستدلال نہ کرتا ہو۔‘‘[2] عکرمہ نے ۱۰۵ہجری میں داعی اجل کو لبیک کہا۔[3]
(ج) عطاء بن ابی رباح:…… عطاء حرم کے مفتی اور ائمہ فقہاء میں سے ہیں۔ حضرت ابن عباس، حضرت ابوہریرہ، سیدہ ام سلمہ، سیدہ عائشہ صدیقہ، حضرت رافع بن خدیج، حضرت زید بن ارقم، حضرت ابن زبیر، حضرت ابن عمر، حضرت ابن عمرو، حضرت جابر، حضرت معاویہ، حضرت ابو سعید اور متعدد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے حدیث روایت کرتے ہیں۔[4] عطاء ثقہ، فقیہ، عالم اور بہت زیادہ حدیث (بیان کرنے) والے تھے۔ اہل مکہ کا فتوی ان پر ختم تھا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما عطاء رحمہ اللہ کے بارے میں فرماتے ہیں: ’’اے اہل مکہ! تم اکٹھے ہو کر میرے پاس چلے آتے ہو حالانکہ تم میں عطاء موجود ہیں۔‘‘ آپ کی جلالت علمی کی وجہ سے ہی بنو امیہ حج کے دنوں میں اس بات کا اعلان کروا دیتے تھے کہ لوگوں کو (مناسک حج کے بارے میں) عطاء کے سوا کوئی دوسرا فتویٰ نہ دے۔‘‘ آپ نے ۱۱۵ہجری میں وفات پائی۔[5]
یہ مدرسہ مکیہ کے چند ان جلیل القدر تابعین کا اختصار کے ساتھ تذکرہ ہے جنہوں نے نسل نو کی تعلیمی، دعوتی اور تربیتی ذمہ داری کو اپنے کندھوں پر اٹھایا۔[6]
۴۔ بصرہ کا مدرسہ
بصری مدرسہ علوم دینیہ کے ہر فن میں کوفہ کے مدرسہ کے ساتھ زبردست مقابلہ کرتا تھا۔ بے شمار صحابہ بصرہ جا کر فروکش ہوگئے تھے۔ جن میں حضرت ابو موسیٰ اشعری، حضرت عمران بن حصین اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہم کے نام سر فہرست ہیں۔ سیّدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو حسن بصری، سلیمان تیمی، ثابت بنانی، ربیعہ بن ابی عبدالرحمن، ابراہیم بن ابی میسرہ، محمد بن سیرین اور قتادہ وغیرہ جیسے جلیل القدر تابعین رحمہم اللہ کا شیخ اور استاذ تصور کیا جاتا ہے۔[7] ذیل میں مدرسہ بصریہ کے چند سربر آوردہ تابعین کے تذکروں کو نذر قلم کیا جاتا ہے۔
[1] مقدمۃ فتح الباری: ص ۴۲۸۔
[2] سیر اعلام النبلاء: ۵/ ۳۱۔
[3] ایضًا: ۵/ ۳۴۔
[4] سیر اعلام النبلاء: ۵/ ۷۹۔
[5] الفتوی: ص ۸۱۔ از حسین ملّاح۔
[6] الدعوۃ الی اللّٰه فی العصر العباسی الاول: ۱/ ۴۱۔
[7] تفسیر التابعین: ۱/ ۴۲۳۹۔