کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 285
مجاہد کہتے ہیں: ’’میں نہیں جانتا کہ اللہ نے مجھے ان دونوں میں سے زیادہ بڑی نعمت کون سی دی ہے، اسلام کی ہدایت یا ان خواہشات سے نجات۔‘‘[1] علامہ ذہبی، مجاہد رحمہ اللہ کے اس قول پر حاشیہ لکھتے ہوئے رقم کرتے ہیں: ’’مجاہد رحمہ اللہ کی خواہشات سے مراد تھی رافضیت، قدریت اور جہمت۔‘‘[2] عبدالوہاب بن مجاہد سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: ’’میں ابا جان کے پاس بیٹھا تھا کہ آپ کا بیٹا یعقوب آپ کے پاس آیا اور کہنے لگا: ’’ابا جان! ہمارے کچھ دوست ہیں جو اس بات کا اعتقاد رکھتے ہیں کہ ہم زمین والوں اور آسمان والوں کا (یعنی مقربین ملائکہ اور دوسرے فرشتوں کا) ایمان ایک ہی ہے۔‘‘ آپ نے فرمایا: ’’بیٹے! یہ لوگ میرے اصحاب نہیں۔ اللہ نے ان لوگوں کو جو ہر وقت گناہوں میں ڈوبے ہوتے ہیں۔ (یعنی اہل زمین کو) ان لوگوں کی طرح نہیں بنایا جن سے کسی گناہ کا صدور ہی نہیں ہوتا۔‘‘[3] مجاہد رحمہ اللہ نے تراسی سال[4] کی عمر میں ۱۰۲ہجری میں بحالت سجدہ جان جان آفرین کے سپرد کر دی۔[5] (ب) عکرمہ مولیٰ ابن عباس رضی اللہ عنہما :…… عکرمہ مکی، تابعی، ثقہ اور تابعین میں سب سے زیادہ علم کے مالک ہیں[6]، آپ حضرت ابن عباس، سیدہ عائشہ صدیقہ، حضرت ابوہریرہ، حضرت ابن عمر، حضرت ابن عمرو، حضرت عقبہ بن عامر اور حضرت علی رضی اللہ عنہم سے حدیث روایت کرتے ہیں۔[7] عکرمہ کہتے ہیں: ’’میں چالیس سال تک علم حاصل کرتا رہا اور میں دروازے پر لوگوں کو فتوی دیا کرتا تھا جبکہ سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اندر گھر میں موجود ہوتے تھے۔‘‘ عکرمہ سے روایت ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ان سے خود فرمایا: ’’جاؤ اور جا کر لوگوں کو فتوی دیا کرو، میں تیری مدد کروں گا۔‘‘ میں نے عرض کیا :’’اگر لوگ اس سے دو چند بھی ہو جائیں تو تب بھی میں انہیں فتوی دوں۔‘‘ آپ نے پھر فرمایا: ’’جاؤ اور جا کر لوگوں کو فتویٰ دو، پس جو کام کی بات پوچھے اسے جواب دو اور جو لا یعنی سوال کرے اسے جواب مت دینا یوں تو اپنی گردن سے لوگوں کی دو تہائی ذمہ داری اتار پھینکے گا۔‘‘[8] (کہ زیادہ تر لوگ لا یعنی سوال ہی کرتے ہیں) عکرمہ کثرت کے ساتھ سفر کیا کرتے تھے۔ آپ عبدالرحمن حساس غافقی کے پاس جا کر فروکش ہوئے، وہاں سے افریقہ چلے گئے۔[9] عکرمہ پر ’’صفریہ‘‘ ہونے کی بھی تہمت لگائی گئی جو خوارج کا ایک فرقہ تھا، لیکن یہ تہمت کسی صحیح سند کے ساتھ ثابت نہیں۔ یہ تہمت ’’یقال‘‘[10] (کہا جاتا ہے) کے صیغہ کے ساتھ کتبِ تاریخ میں ملتی ہے جو تعبیر کا
[1] سیر اعلام النبلاء: ۴/ ۴۵۵۔ [2] ایضًا [3] ایضًا [4] ایضًا: ۴/ ۴۵۶۔ [5] ایضًا [6] طبقات ابن سعد: ۵/ ۴۶۷۔ [7] سیر اعلام النبلاء: ۵/ ۱۳۔ [8] ایضًا : ۵/ ۱۵۔ [9] ایضًا [10] براء ۃ السلف ما نسب الیھم من انحراف فی الاعتقاد: ص ۳۹۔