کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 284
وغیرہ[1]کے دور میں بھی مکہ کے علم کی ترقی کا حال یہی رہا۔ البتہ مکہ کو یہ خصوصی امتیاز حاصل ہے کہ حبر الامہ، ترجمان القرآن سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس بلد امین کو اپنی علمی فقہی، حدیثی، قرآنی، دعوتی اور تربیتی کاوشوں کا مرکز بنا لیا تھا جس کے واضح اثرات ہمیں حضرات تابعین کے دور میں نظر آتے ہیں۔ آپ نے علم تفسیر پر خصوصی توجہ دی۔ اور اپنے شاگردوں کی اس خاص فن میں خصوصی تربیت کی۔ پھر ایسے ایسے نابغہ روزگار پیدا ہوئے جو تفسیری مدارس کے سب تلامذہ پر سبقت لے گئے۔ علماء نے اس سبقت و فوقیت کے اگرچہ متعدد اسباب ذکر کیے ہیں لیکن ان میں سب سے اہم سبب خود سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی تفسیر میں امامت وجلالت اور آپ کی استاذیت تھی۔[2] ذیل میں مدرسہ مکیہ کے اجل علمائے تابعین کا مختصر تذکرہ کیا جاتا ہے۔ (الف) مجاہد بن جبر مکی:…… آپ نے تفسیر اور فقہ کو سیّدنا ابن عباس اور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم سے حاصل کیا۔ آپ عالم فقیہ، ثقہ اور علم کا خوگر تھے۔[3] مجاہد خود بیان کرتے ہیں کہ ’’میں نے سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما پر تین مرتبہ پورا قرآن پڑھا کہ میں آپ کو ہر آیت پر روک کر یہ سوال کرتا کہ یہ آیت کس بارے میں نازل ہوئی اور اس کا مطلب کیا ہے۔‘‘[4] قتادہ کہتے ہیں: ’’باقی رہ جانے والے تابعین میں سے تفسیر کے سب سے بڑے عالم مجاہد ہیں۔‘‘[5] مجاہد بیان کرتے ہیں کہ ’’میں سیّدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں ان کی خدمت کرنے کے جذبے سے حاضر ہوتا تھا مگر وہ خود میری خدمت کرنے لگ جاتے تھے۔‘‘[6] مجاہد نے سلیمان بن عبدالملک اور سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ دونوں سے ان کے ادوارِ خلافت میں آکر ملاقات کی تھی، مجاہد سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی وفات پر حاضر ہوئے تھے۔ مجاہد کہتے ہیں: ’’سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے مجھ سے اپنے مرض الوفات میں پوچھا کہ لوگ میرے بارے میں کیا کہتے ہیں؟‘‘ (کہ میرا یہ حال کس بنا پر ہے) تو میں نے کہا کہ ’’لوگ کہتے ہیں کہ آپ پر کسی نے جادو کر دیا ہے۔‘‘ آپ نے فرمایا: ’’مجھ پر جادو نہیں۔‘‘ پھر اپنے ایک غلام کو بلا کر پوچھا: ’’تیرا بھلا ہو! تم نے مجھے زہر کیوں پلایا؟‘‘ بولا: ’’مجھے اس کام کے ایک ہزار دینار دیئے گئے تھے اور مجھ سے آزادی کا بھی وعدہ کیا گیا ہے۔‘‘ آپ نے فرمایا: ’’وہ دینار میرے پاس لاؤ۔‘‘ غلام جا کر وہ دینار لے کر آیا۔‘‘ آپ نے وہ دینار بیت المال میں جمع کروا دیئے اور زہر دینے والے غلام سے فرمایا: ’’کسی ایسی جگہ چلے جاؤ، جہاں تمہیں کوئی دیکھ نہ پائے۔‘‘[7]
[1] المدینۃ النبویۃ فجر الاسلام والعصر الراشدی: ۲/ ۴۸۔ [2] تفسیر التابعین: ۱/ ۳۷۱۔ از محمد خضری۔ [3] الفتوی: ص ۸۰۔ از محمد حسین ملّاح۔ [4] سیر اعلام النبلاء: ۴/ ۴۵۱۔ [5] سیر اعلام النبلاء: ۴/ ۴۵۱۔ [6] ایضًا: ۴/ ۴۵۲۔ [7] ایضًا: ۴/ ۴۵۳۔