کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 283
ذات کی کی ہے۔‘‘[1] اوزاعی کہتے ہیں: ’’میں نے بلال بن سعد کو یہ کہتے سنا: ’’اللہ کی قسم! ہمارا یہی گناہ کافی ہے کہ اللہ نے ہمیں دنیا سے زاہد بنایا اور ہم دنیا کی رغبت رکھتے ہیں۔‘‘[2] آپ نے تقریباً ایک سو چودہ یا پندرہ ہجری میں وفات پائی۔ ۲۔ مدینہ کا مدرسہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس دار فانی سے رحلت فرما جانے کے بعد مدینہ خلافت اسلامیہ کا پایہ تخت رہا۔ اور یہی مرکز خلافت بھی تھا۔ اسی شہر کی پاکیزہ فضاؤں میں حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی نورانی عقلوں کو مزید جلا ملی اور ان میں استخراج احکام کی خداداد صلاحیتیں ابھر ابھر کر سامنے آنے لگیں اور وہ احکام فتوحات کی کثرت کی بنا پر اسلامی معاشرے میں پیدا ہونے والے نت نئے مسائل کے حل کے قرار واقعی مناسب تھے۔ خلافت فاروقی میں فقہاء صحابہ کی تعداد ۱۳۰ تک پہنچ گئی۔ اور ان میں بھی سات فقہاء صحابہ رضی اللہ عنہم سب سے ممتاز اور کثرت کے ساتھ فتویٰ دینے والے تھے۔ ان کے اسمائے گرامی یہ ہیں: ’’سیّدنا عمر، علی، عبداللہ بن مسعود، سیدہ عائشہ صدیقہ، زید بن ثابت، عبداللہ بن عباس اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم ۔‘‘[3] پھر حضرات تابعین عظام رحمہم اللہ ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے علم، دعوت اور تربیت کے سچے وارث اور جانشین بنے۔ ان علماء وفقہاء تابعین رحمہم اللہ میں سے جن خوش نصیبوں نے خوب شہرت پائی ان کے نام نامی یہ ہیں ’’سعید بن مسیب، عروہ بن زبیر، عمرہ بنت عبدالرحمن بن سعد انصاریہ، قاسم بن محمد بن ابی بکر الصدیق، سلیمان بن یسار اور نافع مولی ابن عمر رحمہم اللہ ۔‘‘[4] میں نے اسی کتاب کے آغاز میں ان تابعین عظام کے علمی کردار پر کافی حد تک روشنی ڈال دی ہے۔ ۳۔ مکہ کا مدرسہ: مکہ کے اس مدرسہ کی سب اہل ایمان کے دل میں بے حد عزت و تکریم تھی چنانچہ مکہ کے مقیم، بلد حرام کی زیارت اور حج وعمرہ کے لیے آنے والے سب کے سب اس مدرسہ کو عظمت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ بلکہ مکہ تو وہ شہر ہے جس کی محبت میں ہر وہ شخص گرفتار ہے جس نے اس کی زیارت کر لی ہے اور یا جو ابھی تک اس کی زیارت کرنے کے لیے تڑپ رہا ہے۔ دور صحابہ میں اس شہر پر علم کا راج تھا۔ اور دور صحابہ کے آخر میں مکہ کا علم ترقی کی اوج ثریا کو چھو رہا تھا۔ حضرات تابعین اور ان کے ہو نہار تلامذہ جیسے ابن ابی نجیح اور ابن جریج
[1] سیر اعلام النبلاء: ۵/ ۹۱۔ [2] ایضًا: ۵/ ۹۲۔ [3] المدینۃ النبویۃ فجر الاسلام والعصر الراشدی: ۲/ ۴۵۔ [4] الفتوی: ص ۸۱، ۸۲۔ از دکتور حسین ملّاح۔