کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 282
(د) مکحول شامی دمشقی:…… اہل شام کے عالم، زہری کے معاصر تھے اور تابعین کے وسطی طبقہ میں شمار کیے جاتے تھے۔ حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ سے حدیث سنی۔ دمشق میں حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے سب سے آخر میں وفات پانے والے یہی صحابی رسول حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ ہی تھے۔ [1]
آپ نے اٹھانوے سال کی عمر میں ۸۵ہجری میں انتقال فرمایا۔[2]
مکحول کے بارے میں زہری کہتے ہیں ’’علماء تو صرف چار ہی ہیں مدینہ میں سعید بن مسیب، کوفہ میں شعبی، بصرہ میں حسن بصری اور شام میں مکحول۔‘‘[3] مکحول اہل شام کے سب سے بڑے فقیہ تھے۔ آپ کے زمانے میں فتوی میں آپ سے زیادہ بصیرت و فراست کسی میں نہ تھی۔[4] آپ نے ۱۱۲ یا ۱۱۳ہجری میں وفات پائی۔ آپ کے سن وفات میں اور بھی اقوال ہیں۔[5]
(ھ) سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ :…… مدرسہ شامیہ ومدینہ کے عالم تھے۔ آپ کا شمار شامی علماء میں تب سے ہونے لگا جب آپ نے خلافت سنبھالنے کے بعد شام ہجرت کر لی تھی۔ فقہ میں معروف تھے اور سنت کی بے پناہ بصیرت حاصل تھی۔ اختلافی امور میں لوگوں کا مرجع آپ ہی تھے۔[6] خلافت امویہ کا پایہ تخت ہونے کی بنا پر شام کے مدرسہ نے بے پناہ ترقی کی۔
(و) بلال بن سعد سکونی:…… آپ امام ربانی، واعظ ومبلغ ابو عمرو دمشقی اہل دمشق کے شیخ ہیں، آپ کے والد ماجد صحابی تھے۔ آپ زبردست واعظ تھے اور عامۃ الناس کے لیے نہایت مفید اور پر اثر سچے قصے بیان کرتے تھے۔ آپ شام والوں کے لیے ایسے ہی تھے جیسے عراق والوں کے لیے حسن بصری تھے۔ آپ اہل شام کے قاری اور بلند آواز تھے۔[7]
اوزاعی کہتے ہیں: ’’میں نے بلال بن سعد سے زیادہ فصیح و بلیغ واعظ نہیں دیکھا۔‘‘[8] آپ کا وعظ نہایت بلیغ نصیحت پر مشتمل ہوتا تھا، چنانچہ آپ فرماتے ہیں: ’’اے ڈرنے والو! تم فنا کے لیے نہیں پیدا کیے گئے بلکہ تمہیں ایک گھر سے دوسرے گھر کی طرف منتقل کر دیا جائے گا، جیسا کہ تمہیں باپوں کی صلبوں سے ماؤں کے رحموں میں اور رحموں سے دنیا میں منتقل کیا گیا۔ پھر دنیا سے قبروں میں منتقل کر دیا جائے گا پھر قبروں سے میدان محشر میں اور وہاں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے یا تو جنت میں یا پھر جہنم میں منتقل کر دیا جائے گا۔‘‘[9]
آپ کا یہ قول بھی ہے کہ یہ مت دیکھو کہ تم نے کتنا چھوٹا گناہ کیا یہ بلکہ یہ دیکھو کہ تم نے نافرمانی کس عظیم
[1] سیر اعلام النبلاء: ۳/ ۳۸۶۔
[2] ایضًا: ۳/ ۳۸۶۔
[3] ایضًا : ۵/ ۱۵۸۔
[4] ایضًا : ۵/ ۱۵۹۔
[5] ایضًا : ۵/ ۱۵۹۔
[6] الدعوۃ الی اللّٰه فی العصر العباسی الاول: ۱/ ۵۴۔
[7] سیر اعلام النبلاء: ۵/ ۹۰۔۹۱۔
[8] ایضًا : ۵/ ۹۱۔
[9] ایضًا: ۵/ ۹۱۔