کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 281
عبدالملک بن مروان نے بلال بن ابی الدرداء کو قضاء سے معزول کر کے آپ کو قاضی بنا دیا تھا۔[1] پھر عبدالملک نے آپ کو وعظ کہنے سے منع کر کے قضاء کو پوری یکسوئی کے ساتھ سنبھالنے کا حکم دے دیا۔ اس پر آپ نے فرمایا: ’’آپ نے ہمیں اس بات سے تو منع کر دیا جس کی ہمیں رغبت ہے اور ذمے وہ لگا دیا جس سے ہم ہر وقت ڈرتے رہتے ہیں۔‘‘[2] آپ نے ۸۰ہجری میں اس عالم فانی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے الوداع کہہ دیا۔[3]
(ب) فقیہ قبیصہ بن ذؤیب دمشقی:…… قبیصہ سیّدنا عمر بن خطاب، سیّدنا ابودرداء، سیّدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہم اور بے شمار لوگوں سے حدیث روایت کرتے ہیں۔ قبیصہ ثقہ تابعین میں سے تھے۔ آپ کا شمار مامون علماء اور کثیر الحدیث محدثین میں ہوتا تھا۔ شعبی کہتے ہیں، ’’قبیصہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی قضاء کو سب سے زیادہ جاننے والے تھے۔‘‘[4]آپ کے بارے میں مکحول کا یہ قول ہے کہ ’’میں نے قبیصہ سے بڑا کوئی عالم نہیں دیکھا۔‘‘[5] اور ابن شہاب کا کہنا ہے کہ ’’قبیصہ اس امت کے علماء میں سے تھے۔‘‘[6] آپ کی وفات کے بارے میں تین اقوال ہیں کہ ۸۶ یا ۸۷ یا۸۸ ہجری میں آپ کا انتقال ہوا۔[7]
(ج) رجاء بن حیوہ فلسطینی:…… اہل شام کے محدث اور کبار تابعین میں سے ہیں، حضرت معاذ بن جبل، حضرت ابودرداء، حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہم اور ایک جماعت سے حدیث روایت کرتے ہیں۔[8]
آپ شامی، ثقہ، فاضل اور بے پناہ علم کے مالک تھے۔[9]
رجاء بن حیوہ کا قول ہے کہ ’’جو صرف ایسے لوگوں کے ساتھ بھائی چارہ رکھتا ہے جن میں کوئی عیب نہ ہو تو اس کے دوست کم ہوتے ہیں اور جو اپنے دوست کے اخلاص پر راضی نہیں ہوتا، اس کا دوست اس سے ناراض ہی رہتا ہے۔ اور جو اپنے دوستوں کی ہر لغزش پر انہیں سزا ضرور ہی دیتا ہے تو اس کے دشمن بہت زیادہ ہو جاتے ہیں۔‘‘ [10]
عبدالملک بن مروان اور عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے ہاں رجاء کا بے حد مرتبہ تھا۔ رب تعالیٰ نے آپ کے ہاتھوں بے شمار نیکی کے کام کروائے۔ پھر انہیں پیچھے کر دیا گیا تو یہ گوشہ نشین ہوگئے۔ [11]
رجاء نے ۱۱۲ہجری میں وفات پائی۔ [12]
[1] سیر اعلام النبلاء: ۴/ ۲۷۵۔
[2] ایضًا
[3] ایضًا: ۴/ ۲۷۶۔
[4] ایضًا: ۴/ ۳۔
[5] ایضًا
[6] ایضًا
[7] ایضًا
[8] ایضًا: ۴/ ۵۵۹۔
[9] ( الفتوی، نشأتھا وتطورھا: ص۸۵۔ از حسین ملّاح۔
[10] سیر اعلام النبلاء: ۴/ ۵۵۸۔
[11] ایضًا: ۴/ ۵۶۰۔
[12] ایضًا: ۴/ ۵۶۱۔