کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 280
۱۔ شام کا مدرسہ:
یہ مدرسہ خلافت فاروقی میں قائم کیا گیا تھا، اس مدرسہ کے ممتاز مؤسس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں حضرت معاذ بن جبل، حضرت ابو درداء اور حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہم کے اسمائے گرامی آتے ہیں، حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بعد جن جلیل القدر تابعین رحمہم اللہ نے اس مدرسہ کی دعوتی، علمی اور تربیتی ذمہ داریوں کو سنبھالا، ان میں سے مشہور تابعین یہ ہیں:
(الف) امام فقیہ ابو ادریس خولانی عائذ بن عبداللہ رحمہ اللہ :…… یہ دمشق کے قاضی اور عالم ہیں، حضرت ابودرداء، حضرت ابوہریرہ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہم جیسے عظیم صحابہ کرام سے حدیث روایت کرتے ہیں۔ شام میں سیّدنا ابو درداء رضی اللہ عنہ کے بعد جناب خولانی ہی افق علم پر چمکنے والے سب سے روشن ستارے تھے۔ حضرت ابو ادریس خولانی رحمہ اللہ خود روایت کرتے ہیں: ’’میں نے سیّدنا ابو درداء رضی اللہ عنہ کو پایا اور ان سے احادیث یاد کیں۔ اسی طرح مجھے حضرت عبادہ بن صامت اور حضرت شداد بن اوس رضی اللہ عنہما سے بھی فیض یاب ہونے کی سعادت ملی اور میں نے ان دونوں حضرات سے بھی احادیث کو محفوظ کیا۔‘‘[1]
حضرت ابو ادریس خولانی رحمہ اللہ حلال وحرام کا علم جاننے والے ثقہ فقہاء میں شمار کیے جاتے ہیں، قرآن کریم کی بے حد عمدہ تلاوت کرتے تھے۔ یزید بن عبیدہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ ’’میں نے ابو ادریس خولانی رحمہ اللہ کو عبدالملک بن مروان کے عہد خلافت میں دیکھا۔ میں دمشق کی جامع مسجد میں داخل ہوا تو متعدد علمی حلقے لگے تھے، کہیں قرآن پڑھا جا رہا تھا تو کہیں علوم کا درس دیا جا رہا تھا، میں نے دیکھا کہ ابو ادریس مسجد کے ایک ستون سے ٹیک لگائے بیٹھے ہیں، چنانچہ جب بھی کسی حلقہ میں آیت سجدہ آتی تو وہ آپ کے پاس پیغام بھیجتے کہ یہ آیت آپ پڑھ دیجئے۔ پھر آپ وہ آیت پڑھتے جس کو سب مسجد والے ہمہ تن گوش ہو کر سنتے۔ پھر سب اکٹھے سجدہ کرتے۔ پھر جب وہ سب کے سب قرآن پڑھنے سے فارغ ہو جاتے تو آپ کھڑے ہو کر سب میں وعظ ارشاد فرماتے۔‘‘[2]
یزید بن ابو مالک کہتے ہیں کہ ’’ہم ابو ادریس خولانی کی خدمت میں بیٹھتے تھے اور آپ ہمیں احادیث سنایا کرتے تھے۔ ایک دفعہ آپ نے ہمیں جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک غزوہ کا حال بیان کیا یہاں تک کہ سب مجاہدین کے نام گنوا دئیے (اور ہمیں یوں لگنے لگا کہ جیسے یہ سارا منظر آپ نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا) تو مجلس کے ایک کونے سے کسی صاحب نے یہ کہہ دیا: ’’ کیا آپ اس غزوہ میں شریک تھے؟‘‘ فرمایا: ’’نہیں‘‘ اس پر وہ صاحب بولے ’’میں اس غزوہ میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک تھا اللہ کی قسم! آپ کو یہ غزوہ مجھ سے زیادہ یاد ہے۔‘‘[3]
[1] سیر اعلام النبلاء: ۴/ ۲۷۵۔
[2] ایضًا : ۴/ ۲۷۴۔
[3] ایضًا: ۴/ ۲۷۵۔