کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 28
ہوا اور وہ ہمارے عظیم اسلاف کے رشد وہدایت پر مبنی فقہ کے ساتھ وابستہ ہو۔ چنانچہ وہ ترقی کے اسباب وعوامل، خصائص وعلامات اور اسباب سقوط وزوال سے آشنا ہوتا ہے۔ وہ تاریخ اسلامی اور ترقی ونشاۃ کے تجربات سے مستفید ہوتا ہے اوراس کا اس بات پر پختہ یقین ہوتا ہے کہ جب تک یہ امت اپنے خالق ومالک اور پروردگار کی وفادار اور اس کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبردار ہے کوئی شخص بھی اس سے سیادت و صدارت کا منصب نہیں چھین سکتا اور وہ یہ بھی جانتا ہے کہ عسکری شکستیں محض عارضی ہوتی ہیں اور ثقافتی اور تہذیبی شکستیں ایک جان لیوا زخم ہوتی ہیں جبکہ صحیح ثقافت ایک مسلم انسان، ایک مسلم خاندان اور ایک مسلم معاشرہ کی کتاب وسنت، سیرت خلفائے راشدین اور ان کے مبارک منہج پر چلنے والوں کی سیرت کی مضبوط اور مستحکم بنیادوں پر تعمیر کرتی ہے۔ صحیح تہذیبی تعمیر نے ہی تو رب تعالیٰ کی توفیق اور حفاظت کے بعد اسلام کے قلعہ کو آج تک باقی رکھا ہوا ہے۔
سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی مبارک سیرت ہمیں اصلاح کے اس صحیح مفہوم کو سمجھنے میں مدد دے گی جو قرآن کے اس بنیادی اور اصلی مفہوم کے عین مطابق ہے جسے ہمارے مصلح علماء نے بجا طور پر سمجھا اور امت مسلمہ پر اس کو صحیح طریقہ سے منطبق کیا۔ نہ کہ اس لفظ کا وہ مفہوم صحیح ہے جو یورپ سے در آمد شدہ ہے اور ہمارے بعض ان بدنصیب سیاسی مفکرین کے دل ودماغ پر پتھر پر لکیر کی طرح نقش ہوگیا ہے جو یورپ کی ہر ایک حق و باطل میں اندھی تقلیدکرنا ہی اپنااصلی فرض منصبی سمجھتے ہیں حتی کہ ہمارے آج کے بعض مسلمانوں کے نزدیک یہ بات ایک مسلمہ حقیقت کی طرح تسلیم کی جا چکی ہے کہ ’’انقلاب‘‘ یہ اس اصلاح سے کہیں بڑھ کر گہرا، وسیع اور جامع لفظ ہے جو اہل یورپ کے نزدیک اس معمولی تبدیلی کے مترادف ہے جو بتدریج اور کسی قسم کی شدت کے بغیر واقع ہوتی ہے جبکہ ان کے نزدیک انقلاب وہ بنیادی تبدیلی ہے جس میں تدریج کے لفظ کی گنجائش نہیں اور انقلاب یہ شدت اور اچانک یلغار کے معنی کو شامل ہے۔ مگر افسوس کہ عقل کے ان اندھوں کو قرآنی فہم کا شعور نہیں ۔
وہ یہ نہ سمجھ سکے کہ صحیح قرآنی مفہوم کے مطابق اصلاح کا معنی انقلاب سے کہیں زیادہ وسیع، عظیم اور عمیق ہے۔ جو ہمیشہ خوب سے خوب تراور کامل سے کامل ترکی طرف ہوتا ہے۔ جبکہ انقلاب بسااوقات صالح سے فاسد کی طرف کے سفر کانام ہوتا ہے جس کی تکمیل محض کسی حکومت یا حاکم کی تبدیلی تک ہی محدود ہوتی ہے۔[1]
بے شک سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی ذات اس شخص کے لیے ایک اصلاحی نمونہ ہے جو منہاج نبوت
[1] آثار الامام محمد بشیرالا براہیمی:۲/۶