کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 279
۳… خلافت امویہ اور دورِ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے مدارسِ علمیہ
میں نے سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی مبارک سیرت میں اس موضوع پر سیر حاصل گفتگو کی ہے کہ کس طرح آپ رضی اللہ عنہ نے مدینہ منورہ میں جو خلافت راشدہ کا پایۂ تخت تھا، ایک مدرسہ قائم کیا، جہاں سے علماء، مبلغین، والی اور قاضی زیور علم سے آراستہ ہو کر نکلتے تھے۔ پھر مدارس کا یہ سلسلہ مکہ، مدینہ، بصرہ، کوفہ، شام اور مصر وغیرہ تک پھیل گیا۔ جہاں حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوری توجہ کے ساتھ لوگوں کی تعلیم و تربیت کی اہم ذمہ داری کو سنبھالا۔ انہی علمی مدارس نے ان ممتاز علمی فقہی اور دعوتی جماعتوں کو تیار کیا جنہوں نے اسلام پھیلانے میں اس عسکری ادارے کی بھر پور معاونت ومساندت کی، جس کے ہاتھوں عراق، ایران شام، مصر اور بلادِ مغرب فتح ہوئے۔ چنانچہ وہ علماء صحابہ رضی اللہ عنہم جنہوں نے اپنی زندگیاں لوگوں کی دعوت و تربیت کے لیے وقف کر دیں تھیں وہ انہی مفتوحہ علاقوں سے ایک ایسی نسل تیار کرنے میں زبردست کامیاب ہوئے جس کو دین اسلام کا پورا شعور حاصل تھا۔ ان علماء صحابہ رضی اللہ عنہم نے زبان کی آڑ کے مسئلہ پر بھی قابو پا لیا چنانچہ جہاں ان صحابہ نے عجمی لغات پر عبور حاصل کیا وہیں بے شمار عجمیوں نے لغت اسلام ’’عربی مبین‘‘ کو سیکھ کر اس پر کامل دستگاہ حاصل کی۔ حتی کہ دور صحابہ رضی اللہ عنہم کے بعد اس علمی تحریک کی قیادت کا منصب زیادہ تر انہی نو مسلم عجمیوں نے سنبھالے رکھا۔ ان علمی اور فقہی مدارس نے مفتوحہ علاقوں کو بے حد متاثر کیا۔ انہی مدارس نے تابعین کی وہ نسل تیار کی جنہوں نے حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مقدس علوم کو محفوظ بھی کیا اور بلا کم و کاست اگلی نسلوں کو منتقل بھی کیا۔ انہی شاندار محنتوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ حضرات تابعین کو ’’سند‘‘ کے اس مبارک سلسلہ میں نمایاں جگہ ملی جو امت تک اللہ کی کتاب اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو نقل کرتی ہے۔ بے شک حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اس علم کو جو انہوں نے بلا واسطہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل کیا تھا، امت تک منتقل کرنے کی فضیلت اللہ کی ذات مقدسہ کے بعد، اطراف واکناف اسلامیہ جیسے مکہ، مدینہ، کوفہ، بصرہ، شام اور مصر وغیرہ میں پھیلے مدارس علمیہ کے بانیوں کو جاتی ہے۔[1] خلافت امویہ کے دور میں حضرات تابعین عظام کی علمی سرگرمیوں کا سلسلہ جاری رہا اور ان حضرات کے قائم کردہ مدارس علمیہ کے متخرجین نے عملی زندگی میں قدم رکھتے ہی اشاعت دین کے فریضہ کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا، انہی میں سے اکثر علماء نے سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی ان کے اس اصلاحی تجدیدی راشدی منصوبے میں زبردست معاونت کی جس کو انہوں نے منہاج نبوت سے اخذ کیا تھا۔ آئیے ذیل میں بعض اہم مدارس کے احوال کو اختصار کے ساتھ ذکر کرتے ہیں:
[1] الدور السیاسی للصفوۃ: ص ۴۶۲، ۴۶۳۔