کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 278
یہ توجیہات بعینہٖ وہی ہیں جن کو سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے رعایا کو غنی بنانے، اپنے عمال کی چھانٹی کرنے اور ان کا سخت محاسبہ کرنے کی بابت اپنی خلافتی سیاست میں اساسی درجے میں اپنا رکھا تھا۔[1]
۳۔ حکومت کے مختلف عہدوں اور مناصب پر علماء کو متعین کرنا اور متعدد کاموں میں انہیں اپنا شریک کار بنانا:
آپ نے علماء سے فقط مشورہ لینے پر اور ان کے نصیحتیں کر دینے پر ہی اکتفاء نہ کیا بلکہ آپ نے اس سے آگے بڑھ کر انہیں مختلف اقالیم کا والی بنایا اور بعض کو بیت المال کا امر بھی سونپا، جس کا خلافت کی سیاست پر بے حد اچھا اثر مرتب ہوا اور بلا شبہ یہ خلافت کے اہم ترین مناصب تھے جن کو علمائے ربانی کے سپرد کر دینا آپ کے سیاسی منہج کا اہم ترین حصہ تھا۔[2] اگر ہم خلافت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے والیوں کا جائزہ لیں تو ہمیں ان میں زیادہ تعداد علماء کی نظر آتی ہے۔ جیسے کوفہ کی ولایت ثقہ امام، امیرِ عادل عبدالحمید بن عبدالرحمن بن زید بن خطاب کے پاس نظر آتی ہے۔[3] امام جلیل ابوبکر بن عمر بن حزم ہمیں مدینہ کی مسندِ ولایت پر رونق افروز ملتے ہیں۔[4] افریقہ کی زمامِ ولایت امام کبیر اسماعیل بن ابی مہاجر نے اپنے ہاتھوں میں سنبھال رکھی ہے۔[5] جزیرہ فراتیہ، آرمینیا اور آذربائیجان کی ولایت فقیہ محدث عدی بن عدی الکندی کے سپرد کی جاتی ہے۔[6] امام قاضی عبادہ بن نسی نے اردن کی قلمرو قبول کی ہوئی ہے۔[7]ریمن پر ثقہ اور صالح جناب عروہ بن عطیہ سعدی والی نظر آتے ہیں۔[8]اور رقہ کی امارت پر سالم بن وابصہ عبدی جیسے فاضل اور قاضی براجمان نظر آتے ہیں۔[9] رہا بیت المال تو اس کے امور کو بھی متعدد علماء نے اپنے ہاتھ میں لیا ہوا تھا، چنانچہ الجزیرہ کے خراج پر عالم جلیل میمون بن مہران مقرر تھے۔[10] اور صالح بن جبیر صدائی جیسے ثقہ اور صالح عالم سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے خراج پر مقرر نظر آتے ہیں[11]۔ صلی اللہ علیہ وسلم وہب بن منبہ یمن کے بیت المال پر اور میمون بن مہران ہمیں سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی ڈاک پر مقرر نظر آتے ہیں[12]۔ رضی اللہ عنہ علماء کو ان مختلف ولایتوں پر مامور کرنے اور مختلف اقالیم کے بیت المال پر انہیں مقرر کرنے کا خلافت کے مالی اور ادارتی امور کو منضبط اور مرتب کرنے پر زبردست اثر مرتب ہوا جس کے سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے دور خلافت کی سیاسی زندگی میں نہایت عمدہ نتائج حاصل ہوئے۔[13]
[1] اثر العلماء: ص۱۹۹۔
[2] ایضًا : ص۲۰۰۔
[3] سیر اعلام النبلاء: ۵/ ۱۴۹۔
[4] المعرفۃ والتاریخ: ۱/ ۶۴۵۔
[5] سیر اعلام النبلاء: ۵/ ۲۱۳۔
[6] مختصر تاریخ دمشق: ۱۶/ ۳۲۔
[7] سیر اعلام النبلاء: ۵/ ۳۲۳۔
[8] تہذیب التہذیب: ۶/ ۱۸۶۔
[9] (تاریخ دمشق نقلا عن اثر العلماء: ص۲۰۱۔
[10] سیرۃ عمر لابن الجوزی: ص ۷۸۔
[11] اثر العلماء: ص ۲۰۲۔
[12] اثر العلماء: ص ۲۰۲۔
[13] ایضًا