کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 277
قاسم بن مخیمرہ بھی ایسی ہی نصیحت کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’ہمیں بزرگوں سے یہ بات پہنچی ہے کہ جو لوگوں کا والی بنے پھر ان کی حاجت اور فاقہ کو دور نہ کرے تو رب تعالیٰ اس کی حاجت اور فاقہ سے اس دن پردہ فرما لیں گے جس دن وہ اپنے رب سے ملے گا (یعنی قیامت کے دن)‘‘ سیّدنا عمر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’پھر آپ کیا فرماتے ہیں (کہ میں کیا کروں)‘‘ پھر آپ دیر تک سر جھکائے بیٹھے رہے، پھر اٹھ کر لوگوں میں چلے گئے۔[1]
حسن بصری اپنے ایک خط میں آپ کو لکھتے ہیں: ’’اما بعد! اے امیرالمومنین! آپ ہم عمر کے لیے بھائی، بڑے کے لیے بیٹا اور چھوٹے کے لیے باپ بن جائیے، ہر شخص کو اس کے جرم کے بقدر سزا دیجئے، اور غصہ اور طیش میں آکر کسی کو بلا وجہ ایک کوڑا بھی نہ ماریے گا کہ کہیں یہی کوڑا دخول نار کا سبب نہ بن جائے۔‘‘[2]
گزشتہ صفحات میں یہ بات تفصیل سے گزر چکی ہے کہ آپ اس پہلو کو اپنی خلافت کا ایک عملی حصہ بنانے کے بے حد حریص تھے کہ کوئی عامل کسی فرد رعایا پر معمولی سا بھی ظلم نہ کرنے پائے۔ اس لیے آپ نے اس بابت اپنے عمال کو متعدد خطوط لکھے اور اس جانب انہیں بار بار متوجہ کیا۔[3]
سالم بن عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے نصیحتوں بھرے خط کے چند اقتباسات بھی سن لیجئے جو انہوں نے سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کو لکھا تھا، سالم لکھتے ہیں: ’’آپ سے پہلے لوگوں نے کچھ عمل کیے اور کچھ کام کیے، حتی کہ ان کی اگلی نسل نے جنہوں نے انہی باتوں کے ماحول میں پرورش پائی تھی، ان اعمال اور کاموں کو سنت (اور دین) سمجھ لیا۔ ان لوگوں نے دوسروں پر آسودگی کے دروازے بند کر دئیے۔ اور جب بھی یہ آسودگی کا ایک دروازہ بند کرتے اللہ ان پر آزمائش کا ایک دروازہ کھول دیتا، اگر آپ سے ہو سکے… اور یہ اللہ کی مدد سے ہی ہو سکتا ہے… کہ آپ لوگوں پر آسودگی کا دروازہ کھول سکیں تو ایسا کر دیجئے کہ آپ آسودگی کا جو دروازہ بھی کھولیں گے اللہ اس کے بدلے آپ پر آزمائش کا دروازہ بند کر دیں گے۔ جوآپکو کسی عامل کو برطرف کرنے سے روکتا ہے۔ اور جب کسی کو اللہ کے لیے برطرف کریں گے اور اللہ کے لیے عامل بنائیں گے تو اللہ آپ کے اعوان وانصار پیدا کر دے گا اور انہیں آپ تک پہنچا بھی دے گا۔‘‘
اسی خط میں یہ بھی لکھا ہے: ’’آپ عراق کی طرف جس کو بھی والی بنا کر بھیجیں اس کو سزا کی دھمکی کے ساتھ اس بات سے سختی سے منع کر کے بھیجیں کہ وہ کسی کا ناحق مال چھینے یا کسی کا ناحق خون بہائے، اے عمر! اگر تمہیں کسی عامل کے بارے میں یہ خبر پہنچی کہ وہ ظلم کرتا ہے اور تم نے اسے نہ (روکا اور نہ) بدلا تو تمہارے لیے جہنم کے ہول سے نجات کا کوئی رستہ نہیں۔‘‘[4]
[1] سیرۃ عمر لابن الجوزی: ص ۱۱۳۔
[2] ایضًا: ص ۱۰۳۔
[3] اثر العلماء فی الحیاۃ السیاسیۃ فی الدولۃ الامویۃ: ص ۱۹۹۔
[4] سیرۃ عمر لابن الجوزی: ص ۱۰۳۔