کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 276
کہو جو مجھے ناگوار گزرے کیونکہ آدمی اپنے بھائی کو نصیحت کرنے کا حق اس وقت تک ادا نہیں کر سکتا جب تک وہ اسے رو در رو ناگوار بات نہ کہے۔‘‘[1]
ابو الملیح آپ کا یہ قول نقل کرتے ہیں: ’’جب کوئی بادشاہ کے در پر جائے اور وہ نہ ملے تو اس آدمی کو چاہیے کہ وہ رب رحمن کے در پر آئے اور دو رکعت نماز پڑھ کر اس سے اپنی حاجت طلب کرے۔‘‘[2]
آپ کا قول ہے: ’’اپنے نفس کو تین آزمائشوں میں مت ڈالنا، ایک تو سلطان کے پاس نہ جانا چاہے اسے نیک بننے کو کہنے جاؤ، کبھی خواہش نفس پر کان نہ دھرنا، تم نہیں جانتے کہ وہ تیرے دل کو کہاں پھنسا دے اور عورت کے پاس اکیلے میں مت جانا چاہے یہ کہو کہ جی میں تو اسے قرآن پڑھانے جاتا ہوں۔‘‘[3]
آپ فرماتے ہیں: ’’پیغمبر ہو یا کوئی اور بنا صبر کے بڑی خیر نہیں پاتے۔‘‘[4] آپ نے ۱۱۷ہجری میں وفات پائی۔[5] اور ایک قول ۱۱۶ہجری کا بھی ہے۔
۲۔ علماء کا آپ کو نصیحت کرتے رہنا اور خلافتی ذمہ داریوں کا احساس دلاتے رہنا:
بنو امیہ کے دور میں جس خلیفہ کو سب سے زیادہ نصیحتیں کی گئیں اور جس کی سب سے زیادہ رہنمائی کی گئی وہ سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ ہیں جس کی شہادت ان متعدد خطوط ورسائل سے ملتی ہے جس کا سلسلہ آپ میں اور علماء میں جاری رہتا تھا۔ اگر ہم صرف ان سب علماء کے نام اور ان کی نصیحتیں اور ان کے لکھے خطوط ہی گنوانے بیٹھ جائیں تو قصہ بے حد طویل ہو جائے گا۔ اس لیے ہم بطور مثال کے چند نامور علماء کے نام ذکر کرتے ہیں، ’’سالم بن عبداللہ بن عمر بن خطاب، محمد بن کعب قرظی، ابو حازم سلمہ بن دینار، قاسم بن مخیمرہ اور حسن بصری رحمہم اللہ وغیرہ۔ ان علماء کی توجیہات اور رہنمائیوں کا زیادہ تر تعلق سیّدنا عمر رحمہ اللہ کے سیاسی منہج سے ہوتا تھا۔ جس سے اس بات کی زبردست تائید ہوتی ہے کہ آپ کے سیاسی منہج کے سوتے علماء ربانی کی نصائح اور توجیہات سے پھوٹتے تھے۔[6]
اب ذیل میں چند علماء کی ان نصائح کو نقل کیا جاتا ہے جو سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے لیے مشعل راہ بنتی چلی گئی تھیں۔
محمد بن کعب قرظی فرماتے ہیں: ’’اے امیرالمومنین! (لوگوں پر) دروازہ کھلا رکھیے گا، اور حجاب آسان رکھیے گا (یعنی دربان لوگوں کو آپ سے سہولت ملنے دیا کریں) مظلوم کی مدد کیجئے گا اور مظالم واپس کیجئے گا۔‘‘[7]
[1] سیر اعلام النبلاء: ۵/ ۷۵۔
[2] ایضًا
[3] ایضًا: ۵/ ۷۷۔
[4] ایضًا : ۵/ ۷۸۔
[5] ایضًا: ۵/ ۷۸۔
[6] اثر العلماء فی الحیاۃ السیاسیۃ فی الدولۃ الامویۃ: ص ۱۹۹۔
[7] اثر العلماء فی الحیاۃ السیاسیۃ فی الدولۃ الامویۃ: ص ۱۹۹۔