کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 275
علامہ ذہبی میمون بن مہران کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’امام، حجت، جزیرہ کے عالم اور مفتی‘‘ تھے[1]اور خود عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ ان کے بارے میں فرماتے ہیں: ’’جب یہ اور ان جیسے علماء دنیا سے گزر جائیں گے تو ان کے بعد لوگ جاہل اور بے عقل بن جائیں گے۔‘‘ میمون عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ سے عمر میں بیس سال بڑے تھے۔[2] میمون اسلاف امت میں سے تھے۔ کتاب وسنت کی خدمت میں زندگی گزار دی، اور اس بابت آپ کے متعدد واقعات اور پر اثر اقوال بھی ہیں آپ فرماتے ہیں: ’’قدریوں کے ساتھ مت بیٹھو اور حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر سب و شتم سے سخت گریز کرو اور علم نجوم کو مت سیکھنا۔‘‘[3] ایک دن آپ نے سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کو لکھا کہ ’’میں نحیف ولاچار بوڑھا ہوں اور آپ نے میرے ذمہ قضا کا امر سونپ دیا ہے‘‘ آپ الجزیرہ کے خراج اور قضاء کے محکموں پر تعینات تھے۔ سیّدنا عمر رحمہ اللہ نے اس کا جواب یہ لکھ بھیجا کہ ’’میری طرف سے آپ کے ذمے ایسا کوئی کام نہیں جو آپ کو دشواری میں ڈال دے۔ پس آپ خراج میں طیب مال لے لیجئے اور صاف سیدھے معاملے میں فیصلے کیجئے اور جس مسئلہ میں گنجلک ہو، وہ میری طرف بھیج دیجئے، کیونکہ اگر لوگوں پر کوئی کام بھاری ہو جائے تو نہ دین حاصل ہوتا ہے اور نہ دنیا۔‘‘[4] میمون بن مہران فرماتے ہیں: ’’آدمی اس وقت تک متقی نہیں بن سکتا جب تک وہ اپنے نفس کا محاسبہ اس سے بھی زیادہ سختی کے ساتھ نہ کرے جتنا دو کارو باری شریک ایک دوسرے کا سختی کے ساتھ حساب کتاب کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ وہ یہ تک جان لیتا ہے کہ اس کے شریک کا لباس اور کھانا پینا کہاں سے ہے۔‘‘[5] (پس آدمی اپنے نفس کا اس سے بھی سخت محاسبہ کرے) آپ کا یہ قول بھی ہے: ’’تین چیزیں ایسی ہیں جو نیک و بد دونوں کو ہر صورت واپس کی جائیں گی (اور ادا کی جائیں گی) امانت، عہد اور صلہ رحمی۔‘‘ [6] کسی نے آپ سے یہ کہہ دیا کہ ’’اے ابو ایوب! جب تک آپ لوگوں میں زندہ ہیں اللہ انہیں خیر پر باقی رکھے گا۔‘‘ تو آپ نے برجستہ کہا: ’’دیکھو کیا کہتے ہو، لوگ تو اس وقت تک خیر پر باقی رہیں گے جب تک وہ اپنے رب سے ڈرتے رہیں گے۔‘‘[7] آپ فرماتے ہیں: ’’جس نے بدی چھپ کر کی تو وہ توبہ چھپ کر کرے اور جس نے علانیہ بدی کی وہ توبہ بھی علانیہ کرے کیونکہ بندے عار دلاتے ہیں معاف نہیں کرتے جبکہ رب معاف کرتا ہے پر عار نہیں دلاتا۔‘‘[8] جعفر بن برقان راوی ہیں کہ میمون بن مہران نے مجھے ارشاد فرمایا: ’’اے جعفر! مجھے رو در رو ایسی بات
[1] سیر اعلام النبلاء: ۵/ ۷۱۔ [2] ایضًا [3] ایضًا: ۵/ ۷۳۔ [4] ایضًا: ۵/ ۷۴۔ [5] سیر اعلام النبلاء: ۵/ ۷۴۔ [6] سیر اعلام النبلاء: ۵/ ۷۴۔ [7] ایضًا: ۵/ ۷۵۔ [8] سیر اعلام النبلاء: ۵/ ۷۵۔