کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 274
طاعت کی طرف لانا ہی مقصود ہو۔‘‘ اور جن کا یہ قول بھی ہے کہ ’’نہ تو امیر سے کوئی جان پہچان رکھو اور نہ ان سے جو امیر کے واقف کار ہیں۔‘‘ لیکن اس کے باوجود انہیں بھی سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی مجالست اور مشارکت کے سوا کوئی چارہ نظر نہ آتا۔[1] آپ کے دور میں علماء کی مشارکت کے متعدد مظاہر تاریخ کے اوراق میں ہمیں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ذیل میں ان میں سے چند اہم مظاہر کو نقل کیا جاتا ہے: ۱۔ علماء کا خلیفہ کے قریب آنا اور اسلامی منہج پر چلنے میں خلیفہ کی کمر مضبوط کرنا: علماء نے آپ کے اصلاحی کاموں میں بھر پور حصہ لیا اور آپ کی زبردست عملی تائید کی۔ دوسرے بعض علماء سے متاثر ہو کر بھی آپ نے چند اصلاحی کام کیے۔ ان میں عالم باعمل عراک بن مالک[2] کا نام آتا ہے، چنانچہ عراک کے چچا زاد بھائی روایت کرتے ہیں کہ بنو امیہ سے لوٹی ہوئی رقوم واپس نکلوانے میں عراک بن مالک نے سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا زبردست ساتھ دیا اور اس باب میں وہ بنو امیہ کے شدید ترین مخالف تھے۔ اسی شدید مخالفت کا خمیازہ انہیں سیّدنا عمر رحمہ اللہ کے بعد کے اموی خلفاء کے ہاتھوں بھگتنا پڑا۔ چنانچہ یزید بن عبدالملک نے خلافت ہاتھ میں لینے کے بعد آپ کو ’’دھلک‘‘[3] جلا وطن کر دیا۔ عراک بن مالک غفاری، محدث، ثقہ، بہت بڑے شیخ اور کبار اور خیار تابعین میں سے تھے۔ عبادت گزار، شب بیدار اور دنیا سے بے رغبت تھے۔ آپ کے علم و تقوی سے جزیرہ دھلک کے لوگوں نے خوب فائدہ اٹھایا جہاں آپ کو جلا وطن کیا گیا تھا۔[4]آپ مسلسل روزے رکھتے تھے۔ سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ آپ کے بارے میں فرماتے ہیں: ’’میں نے عراک سے زیادہ نماز پڑھنے والا نہیں دیکھا۔‘‘ موصوف نے جلا وطنی کی حالت میں ہی ۱۰۶ہجری میں یزید بن عبدالملک کے دور امارت میں داعی اجل کو لبیک کہا۔[5] سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے مقرب خاص میمون بن مہران سے ان کے بیٹے عمر روایت کرتے ہیں کہ میرے والد بیان کرتے ہیں: ’’میں اور عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ امت کے امر پر رحم کرتے رہے حتیٰ کہ ایک دن میں نے آپ کے پاس چند خطوط پڑے دیکھے تو پوچھا کہ یہ آپ اپنے قلم سے کیسے خطوط لکھتے ہیں حالانکہ یہ کاغذ تو بیت المال کا ہے؟ تو اس کے بعد انہوں نے اپنے ترکہ سے خطوط لکھنے شروع کر دئیے جو آپ خلافت کے اطراف واکناف میں روانہ کرتے تھے اور آپ کے خط کی لمبائی بالشت بھر ہوتی تھی۔‘‘[6]
[1] البدایۃ والنھایۃ نقلا عن اثر العلماء: ص ۱۹۷۔ [2] عراک بن مالک غفاری، مدنی ہیں اور تابعین میں سے تھے۔ [3] دھلک: بحر یمن کا ایک جزیرہ، بے حد دشوار گزار، بنو امیہ اپنے مجرموں کو سزا دینے کے لیے اس جزیرہ کی طرف جلا وطن کر دیتے تھے۔ (سیر اعلام النبلاء: ۵/ ۶۴) [4] انتشار الاسلام فی القرن الافریقی خلال القرون الثلاثۃ الاولی للھجرۃ: ص ۳۸،۳۹۔ [5] سیر اعلام النبلاء: ۵/ ۶۴ [6] ایضًا : ۵/ ۱۳۳۔