کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 272
۴۔ اولویات کی ترتیب: یعنی پہلے کون سا امر مقدم ہے اور بعد میں کون سا۔ آپ نے ان سب امور میں تقدیم و تاخیر اور اولیت و بعدیت کی ترتیب قائم کی۔ چنانچہ آپ نے رد مظالم کو دوسرے سب کاموں پر مقدم کیا۔ اور اس باب میں ایک واضح اور صاف ستھری سیاسی روش اختیار کی۔ اور اس کا آغاز خود اپنی ذات، کنبہ اور خاندان سے کیا۔ آپ نے ظالم والیوں کو معزول کر کے ان کی جگہ نیک اور صالح عامل مقرر کیے۔ جن کی استعداد، امانت داری، عدل پروری اور علمی صلاحیت سے آپ ذاتی طور پر خوب واقف تھے تاکہ ظلم کا ازالہ، شریعت کا قیام اور عدل کا نظام قائم ہو۔ ۵۔ اصلاحی اقدامات میں واضح رویہ: آپ نے شوریٰ، حاکم کی بیعت اور حاکم کے اختیار میں امت کے حق کے مفاہیم کی تجدید کی۔ آپ نے متعدد ولایات پر نگران مقرر کیے۔ عدل کو عام کیا، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضہ کو زندہ کیا، امت مسلمہ کے عقائد کی تصحیح کی۔ باطل عقائد کے خلاف جنگ کی، علماء کی طرف خاص توجہ دی اور ان کے لیے وظائف مقرر کر کے انہیں معاشی طور پر فارغ البال کر دیا تاکہ وہ اطمینان قلب کے ساتھ دعوت وارشاد اور تعلیم وتزکیہ کی ذمہ داریوں کو ادا کرتے رہیں۔ ان کے علاوہ آپ نے اقتصادی، سیاسی اور معاشرتی میدانوں میں بھی بے شمار کارہائے نمایاں ادا کیے جن میں سے بعض کا ذکر گزشتہ اوراق میں گزر گیا ہے اور بعض کا آئندہ صفحات میں آجائے گا۔ ۶۔ قرآن وسنت کی پابندی: آپ نے قرآن وسنت اور حضرات خلفائے راشدین مہدیین رضی اللہ عنہم کی سیرت کو لازم پکڑا۔ اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ آپ نے معاشرے کی اصلاح کے لیے جو اصلاحی اور تجدیدی اقدامات اختیار کیے ان سب کا مرجع شریعت اور اس کے قوانین کا وسیع دائرہ تھا۔ ۲… سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ اور علماء ہم کہہ سکتے ہیں کہ سلیمان بن عبدالملک کے دور میں علماء کو حکومتی ذمہ داریوں میں شریک کرنے کا اور سیاسی فیصلوں پر علماء کے اثر انداز ہونے اور ان کے قریب ہونے کا آغاز ہو چکا تھا۔ پھر جب سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ خلیفہ بنے تو علماء نے حکومتی معاملات کے نظم وضبط میں ایک فعال، قوی اور گوناں گوں کردار ادا کیا۔ اور ان سب میں سر فہرست خود آپ تھے جنہیں معاصر علماء نے ایک جید، عبقری اور بڑا عالم اور فقیہ شمار کیا جس کو ایک عالم کی حیثیت سے ناکہ ایک بادشاہ کی حیثیت سے، امور خلافت سنبھالنے کی بھی کمال مہارت