کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 270
آزاد کردہ غلام ہیں۔‘‘[1] پھر میں وہ اونٹنیاں لے کر وطن لوٹ آیا، اللہ نے مجھے ان اونٹنیوں میں بے حد برکت دی اور میں بہت سے اونٹوں اور غلاموں کا مالک بن گیا اور اب میں صحراء فلج[2] میں رہ رہا تھا۔ انہی دنوں کسی نے مجھے سلیمان ابن عبدالملک کے مرنے کی اطلاع دی۔ میں نے پوچھا کہ ان کے بعد کون امیر بنا ہے؟ تو اس نے بتلایا عمر ابن عبدالعزیز رحمہ اللہ ۔ یہ سنتے ہی میں ان کی طرف چل پڑا۔ راستے میں مجھے جریر شاعر ملا جو آپ کے پاس سے ہو کر آرہا تھا۔ میں نے پوچھا، ’’اے ابو حرزہ! کہاں سے آرہے ہوں؟‘‘ بولا: ’’اس کے پاس سے جو فقیروں کو تو دیتا ہے پر شاعروں کو کچھ نہیں دیتا۔ البتہ تم یہ کہنا کہ میں مسافر ہوں۔ اس تاویل سے شاید تمہیں کچھ مل جائے۔‘‘ غرض میں نے سفر جاری رکھا اور آپ کے گھر کے صحن میں جا پہنچا، دیکھا کہ آپ لوگوں کے جھرمٹ میں بیٹھے ہیں، ہجوم کی وجہ سے میں آپ کے قریب نہ جا سکا، تو میں نے دور سے پکار کر یہ اشعار پڑھے: یا عمر الخیرات والمکارم وعُمر الدَّسائع العظائم إنِّي امرئُ من قطن بن دارم أطلب دَیْنٍ من أخ مکارم إذ ننتجي واللّٰہ غیر نائم في ظلمۃ اللیل ولیل عاتم ’’اے خیرات و برکات، مکام اخلاق کے مالک عمر، اے بے پناہ بخششوں اور عطاؤں والے عمر! میں قطن بن دارم کا آدمی ہوں۔ اور میں تو ایک نیک بھائی سے اپنا وہ قرض مانگنے آیا ہوں جس کی بات تاریک رات کے اندھیرے میں ابو یحییٰ اور سالم کے ہوتے ہوئے ہوئی تھی اور اللہ اس وقت جاگ رہا تھا اور گواہ تھا۔‘‘ اس پر ابو یحییٰ نے کھڑے ہو کر کہا: ’’اے امیرالمومنین! میرے پاس اس بدوی کی ایک شہادت ہے۔‘‘ آپ نے فرمایا: ’’ہاں! میں اس کو جانتا ہوں۔ اے دکین! میرے قریب ہو، میں ویسا ہی ہوں جیسا میں نے تم کو ذکر کیا تھا بے شک میں جو مرتبہ بھی حاصل کر لیتا ہوں اس سے اگلے کا خواہش مند ہوتا ہوں، اور اب میں نے دنیا کی انتہا اور مقصود کو حاصل کر لیا ہے۔ اب میرا نفس اس سے آگے کا مشتاق ہے اور وہ ہے آخرت۔ اللہ کی قسم! میں لوگوں کے مال میں سے کچھ کم کر کے تمہیں نہ دوں گا ہاں میرے پاس دو ہزار درہم ہیں، میں ان میں سے آدھے تمہیں دے دیتا ہوں۔‘‘ پھر آپ نے مجھے ایک ہزار دراہم دینے کا حکم ارشاد فرمایا، اللہ کی
[1] الشعر والشعراء لابن قتیبۃ: ۲/ ۶۱۱۔ [2] یہ صحراء کی ایک جگہ کا نام ہے۔