کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 269
تجہَّزي بجہاز تبلُغین بہ یا نفس قبل الرّدی لم یُخلقي عبثا ’’جو لوگ چہرے پر دھوپ یا غبار پڑنے سے بدنمائی اور پراگندگی سے ڈرتے ہیں اور اپنی بشاشت کو باقی رکھنے کے لیے سایوں میں چلے آتے ہیں، ایک دن آئے گا جب وہ قبر میں خاک آلود پڑے ہوں گے۔ اس قبر کے گڑھے میں جو گہرا، تاریک، وحشت ناک ہے اور نہ جانے کتنی طویل مدت تک وہ لوگ قبر کے اس تاریک گڑھے میں پڑے رہیں گے۔ اے نفس! اس سے قبل کہ تمہیں موت آجائے اتنی تیاری کر لے کہ جس کے ذریعے تو اپنی منزل تک پہنچ جائے کہ تمہیں یوں ہی بے کار پیدا نہیں کیا گیا۔‘‘[1] ۲۲۔ سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ اور مشہور وشاعر دکین: دکین خود بیان کرتا ہے کہ ’’سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ جب مدینہ کے والی تھے تو ایک موقعہ پر میں نے ان کی مدح میں چند اشعار کہے تو آپ نے مجھے پندرہ عمدہ مگر سرکش اونٹنیاں دیئے جانے کا حکم دیا جو ابھی تک سدھائی ہوئی نہ تھیں۔ اب میں نے ان پر سفر کرنا بھی پسند نہ کیا کہ کہیں مجھ پر بپھر نہ جائیں اور نہ میں نے انہیں بیچنا پسند کیا کہ بڑی عمدہ تھیں۔ اتنے میں مضر کے چند دوست ہمارے پاس آئے۔ میں نے ان سے درخواست کی کہ مجھے بھی سفر میں اپنے ہمراہ کر لیجئے۔ بولے تو پھر آج رات تیار رہو۔ میں نے کہا کہ میں نے امیر کو الوداع نہیں کہا اور جانے سے پہلے یہ بہت ضروری ہے۔ (اس لیے تم صبح تک انتظار کر لو)۔ وہ بولے: ’’امیر رات کو آنے والے سے بھی مل لیتے ہیں۔ (اس لیے تم چاہو تو اب بھی جا کر مل سکتے ہو اور الوداع کہہ آؤ) چنانچہ میں سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اجازت مانگی جو دے دی گئی، میں اندر داخل ہوا۔ آپ کے پاس اس وقت دو بزرگ بیٹھے ہوئے تھے جنہیں میں جانتا تھا۔ میں نے آپ کو الوداع کہا تو آپ نے فرمایا: ’’اے دکین! میں بڑی پر جوش طبیعت کا مالک ہوں اگر خدا نے مجھے اس سے بھی بڑا رتبہ دیا تو میں تمہیں اسی آنکھ سے دیکھوں گا (جس سے اب دیکھ رہا ہوں یعنی میں اس وقت بھی تیرے ساتھ وہی سلوک کروں گا جو اب تیرے ساتھ کیا ہے) تو میں نے عرض کیا ’’اس بات پر کسی کو گواہ کر لیجئے!‘‘ بولے: ’’میں اس بات پر اللہ کو گواہ بناتا ہوں‘‘، میں نے عرض کیا کہ اس کی مخلوق میں سے بھی کسی کو گواہ کر لیجئے۔‘‘ تو فرمایا: ’’میں ان دو صاحبوں کو گواہ بناتا ہوں۔‘‘ اس پر میں ایک صاحب کی طرف متوجہ ہو کر بولا: ’’آپ ذرا اپنا تعارف کروا دیجئے۔‘‘ انہوں نے جواب دیا: ’’سالم بن عبداللہ۔‘‘ تو میں نے کہا: ’’آپ نے بڑے آدمی کو گواہ بنایا ہے۔‘‘ میں نے دوسرے صاحب سے نام پوچھا تو انہوں نے اپنا نام ابو یحییٰ بتلایا۔ اور بتلایا کہ وہ امیر کے
[1] البدایۃ والنھایۃ: ۱۲/ ۷۰۶۔