کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 268
ولا خیر في عیش امریٔ لم یکن لہ من اللّٰہ في دار القرار نصیب ’’جس شخص کے لیے آخرت میں رب تعالیٰ کی طرف سے کوئی حصہ نہیں، اس کی زندگی میں کوئی خیر نہیں۔‘‘[1] آپ کو یہ اشعار پڑھتے بھی سنا گیا ہے: تُسَرُّ بما یَبلی و تفرح بالمنی کما اغتر باللذات في النوم حالم نہارک یامغرور سہو و غفلۃ ولیلُکُ نوم والرّدَی لک لازم وسعیک فیما سوف تکرہ غبَّہ کذلک في الدنیا تعیش البہائم ’’تم فانی چیزوں پر خوش ہوتے ہو اور منی نکلنے پر لذت اٹھاتے ہو جیسے وہ شخص لذتوں سے دھوکا کھاتا ہے جسے نیند میں احتلام ہو، اے دھوکے میں پڑے شخص! تیرا دن بھول اور غفلت میں گزرتا ہے اور رات نیند میں، تجھے ہلاکت مل کر رہے گی۔ تم ان چیزوں کے حصول میں دوڑے پھرتے ہو جن کا انجام تمہیں بے حد ناگوار گزرے گا۔ دنیا میں چوپائے ایسے ہی تو رہتے اور جیتے ہیں۔‘‘[2] ایک جنازہ میں شرکت کے دوران آپ نے چند لوگوں کو دیکھا جنہوں نے دھوپ اور غبار سے بچنے کے لیے اپنے مونہوں پر ڈھاٹے باندھ رکھے تھے اور دھوپ کی تمازت سے بچنے کے لیے سایوں میں چلے گئے تھے تو آپ رو پڑے اور یہ اشعار پڑھے: من کان حین تصیب الشمسُ جبہتہ أو الغبارُ یخاف الشَّیْن والشعثا ویألف الظلَّ کي تبقی بشاشتہ فسوف یسکن یومًا راغماً جدثا في قعر مُظلمۃٍ غبراء موحشۃٍ یطیل في قعرہا تحت الثَّری لُبْثا
[1] البدایۃ والنھایۃ: ۱۲/ ۷۰۷۔ [2] ایضًا