کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 267
گے۔ کتنے مغرور بادشاہ جنہوں نے اپنے سروں پر تاج سجایا اور جنگ کے شعلے بھڑکائے۔ ان کے بچھونے اطلس و دیباج کے تھے اور وہ ریشمی پردوں میں چھپے تھے۔ اور ان کے مضبوط محل تھے۔ لیکن موت نے ان کو بھی آلیا اور اچانک ان پر جھپٹ پڑی۔ اور اب وہ لٹا ہارا مٹی میں رخسار رگڑتا گرا پڑا ہے۔ کیا تم آدم کے بعد بقا کی امید لگائے بیٹھے ہو اور کیا کسی ایسی اصل کی فروعات بھی باقی رہتی ہیں جو خود جڑوں سے کاٹی گئی ہوں۔ لوگوں کے گھر سیلابی ریلوں کے رستوں میں ہیں۔ تو کیا وہ گھر بھی باقی رہتے ہیں جن کو پانیوں پر تعمیر کیا جائے اور ان کی بنیادیں کچی ہوں۔ چاہے جتنا بھی جی لیجئے! بالآخر ایک ماں کی اولاد نے چاہے وہ جتنی بھی زیادہ ہو جائے جانا فنا کی طرف ہی ہے۔ حالات کا حال یہ ہے کہ جب وہ آتے ہیں تو تم پر ان کی حقیقت مشتبہ اور خلط ملط ہو جاتی ہے اور ان کی حقیقت واضح تب ہوتی ہے جب وہ گزر جاتے ہیں اور کئی عبرتیں چھوڑ جاتے ہیں آدمی دنیا میں جتنا بھی رہتا ہے امیدوں میں گھرا رہتا ہے۔ ایک سفر ختم نہیں ہوتا کہ دوسرا سر پر آپڑتا ہے۔ دنیا کی لذت عیش ہمیشہ کے لیے نہیں، ان لذتوں کا انجام تلخ اور کڑوا ہوتا ہے۔ اور جب ایک زمانے کے لوگوں کی جماعتیں اپنا وقت پورا کر کے اس دنیا سے چل دیتی ہیں تو ان کے گھروں میں ان کی جگہ دوسری جماعتیں آ بستی ہیں۔ کیا بات ہے کہ نصیحتیں تمہیں جھنجھوڑتی نہیں حالانکہ چرواہا اگر اپنی بکریوں کو ڈانٹے تو وہ ڈر جاتی ہیں اور بات مان لیتی ہیں۔ (مگر تم ہو کہ نصیحت سن کر بھی بات نہیں مانتے) تم لوگ موت کی بھینٹ ہو اور موت تم لوگوں کو آکر اپنے قبضے میں لے لیتی ہے جیسا کہ دنیا میں درندوں کے لیے بھینٹیں ہوتیں ہیں۔ زیادہ اِتراؤ نہیں اور دنیا کو چھوڑ دو کہ اس کا انجام برا ہے اور اکڑنا اور اترانا کفران نعمت ہے۔ تم اپنے میں کے شریفوں کی اقتدا کرو۔ کہ ہر قوم کے کچھ قابل اقتدا شریف لوگ ہوتے ہیں، تم لوگ ان کے منہج پر چلو اور دنیا کی خواہشات پر اس طرح صبر کرو جس طرح انہوں نے صبر کیا تھا۔ کیا بات ہے کہ میں لوگوں کو دیکھتا ہوں کہ دنیا ان کو پیٹھ دے کر چلی جا رہی ہے اور دنیا پر پڑی ہر رسی ٹوٹتی جا رہی ہے۔ (یعنی دنیا جتنی بھی باندھ باندھ کر رکھو، تمہارے ہاتھوں سے ضرور نکل جائے گی)۔ اگر ان کے دین میں کوئی نقصان ہو جائے تو انہیں اس کا شعور تک نہیں ہوتا البتہ دنیا کے نقصان پر سب کے کان کھڑے ہو جاتے ہیں۔‘‘[1] (’’سابق بربری‘‘ کا عبرتوں اور نصیحتوں سے بھرا یہ طویل قصیدہ ختم ہوا۔ (مترجم)…) سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ اکثر خود بھی شعر کہا کرتے تھے، آپ زیادہ یہ شعر پڑھتے تھے:
[1] سیرۃ عمر: ص ۱۸۷ از عفت وصال۔