کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 266
وبخشش ہے جو ہدایت والے کو سیدھا رستہ دکھلاتی ہے اور گمراہی پانی کا وہ گھاٹ ہے جس پر آنے جانے کو صاحب ہدایت کبھی پسند نہیں کرتا۔ کبھی آدمی کو وہ بات ہلاک کر ڈالتی ہے جسے وہ معمولی اور حقیر سمجھتا ہے اور اے نفس! کبھی وہ شے بھی بڑھ رہی ہوتی ہے جس کو باندھا ہوتا ہے۔ نفس جتنی چیزیں بھی اکٹھی کر لے پر اس کا جی نہیں بھرتا اور وہ ہمیشہ مزید کا خواہش مند رہتا ہے۔ اور اگرچہ نفس کو فراغت بھی حاصل ہوتی ہے لیکن پھر بھی مزید کا متمنی ہی رہتا ہے بالکل ایسے جیسے حوادث زمانہ مسلسل بالوں کے رنگ کو بدلتے رہتے ہیں۔ اور ہر شے کا ایک حال ہوتا ہے جو اس کو ایسی حالت میں بدل کر رکھ دیتا ہے جس کو دیکھ کر نگاہ ٹھنڈی نہیں ہوتی ہے۔ ان حالات میں ذکر خدا دلوں کی حیات ہے جیسے بارش مردہ اور بنجر کو زندہ اور سرسبز کر دیتی ہے۔ علم دل کے اندھیرے کافور کرتا ہے۔ جیسے چاند کی روشنی ظلمت کی سیاہی کو مٹا دیتی ہے اور سوکھے روکھے اور سخت دل کو ذکر کبھی نفع نہیں دیتا۔ بھلا کسی واعظ کے وعظ سے آج تک کوئی پتھر بھی نرم ہوا ہے؟ زندگی کے مسافر کے لیے موت وہ پل ہے کہ جس پر سے چل کر ان امور کی طرف جانا ہے جن سے ڈرایا گیا ہے اور ان کے آنے کا انتظار بھی تھا۔ پس لوگ فوج در فوج اس پل پر سے گزرتے جا رہے ہیں اور انہیں وہ گھر اکٹھا کر رہا ہے جس کی طرف ہر شہری اور دیہاتی چلا جا رہا ہے جو کسی مضبوط قلعے میں بھی ٹھکانا بنا کے بیٹھا تھا موت نے اس کو بھی اس گھر کے حوالے کر دیا اور کسی میخوار کو اس کی مے نوشی اور مے کام نہ آئی حتی کہ جب میں بھی لذتوں میں ڈوبا ہوں گا اور میرے رخسار تکبر سے ٹیڑھے ہوں گے، موت سے میں بھی نہ بچا پاؤں گا۔ میں دیکھتا ہوں کہ ذکر میرے دل پر کوئی اثر نہیں کرتا حالانکہ پانی ٹپک ٹپک کر پتھر کو گھسا دیتا ہے اور اس پر بھی پانی کا اثر نظر آنے لگتا ہے۔ (لیکن میرا دل پتھر سے بھی زیادہ سخت ہوگیا ہے) اگر ذکر آخرت میری آنکھوں کو اسی طرح بے خواب کر دیتا ہے جیسا کہ نقد منافع میری آنکھوں کی نیند اڑا دیتے ہیں تو میں اپنے دل کا علاج کر لیتا جس کو لمبی بیماریوں نے شدید نقصان پہنچایا ہے حالانکہ ہڈیوں کی کمزوری دور ہو جاتی ہے۔ جب ایک چیز پر دن اور رات اور صبح اور شام آتے جاتے ہیں تو اس کو پرانا ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ بظاہر آدمی دن بدن جوان ہوتا ہے لیکن دراصل اس کا ہر قدم زوال اور پستی کی طرف ہوتا ہے۔ ہر گھر نیا بننے کے بعد ویران ضرور ہوتا ہے اور جوانی کے پیچھے بڑھاپا اور موت ہے۔ اور وہ شاخ جو جڑوں کے تر ہونے کی وجہ سے سر سبز، اور نرم ونازک نظر آتی ہے۔ عنقریب اس کی جڑیں سوکھ جائیں گی اور وہ کھوکھلی سوکھی تانت کی طرح نظر آئے گی، زمانے نے کتنوں کا شیرازہ بکھیر کے رکھ دیا اور جو ابھی تک مجتمع ہیں عنقریب پراگندہ اور منتشر ہو جائیں