کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 265
وقُرّب من لحدٍ فصار مقیلہ
وفارق ما قد کان بالأمس قد جمع
’’کتنے ہی تندرست لوگ موت سے بے خوف ہو کر سو رہے لیکن سونے کے بعد موت نے اچانک ان کو آدبوچا اور وہ اس اچانک موت سے بچ کر کہیں بھاگ نہ سکے اور نہ طاقت کے بل پر اسے روک سکے۔ پھر صبح کو لوگوں نے دیکھا کہ اس کے گھر کی عورتیں نقاب اوڑھے اس پر رو رہی ہیں مگر افسوس کہ وہ کسی پکارنے والے کی پکار نہیں سن پاتا چاہے اس کی آواز کتنی ہی بلند کیوں نہ ہو، پھر اسے قبر کے قریب کر دیا جاتا ہے۔ (اور پھر اس میں اتار دیا جاتا ہے) پھر یہی قبر اس کی آرام گاہ بن جاتی ہے اور کل تک اس نے جو کچھ اکٹھا کیا تھا، آج اس سب کو چھوڑ چھاڑ کر قبر میں اکیلا پڑا ہے۔‘‘
میمون بن مہران جو اس واقعہ کا راوی ہے، بیان کرتا ہے کہ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ ان اشعار کو سن کر اس قدر روئے کہ بے ہوش ہوگئے، اس پر ہم وہاں سے اٹھ کر چلے آئے۔[1]
قارئین کرام کی روحانی تربیت کی غرض سے ہم ذیل میں سابق کا وہ طویل قصیدہ نقل کرتے ہیں جو مواعظ و حکم سے لبریز ہے اور جسے سن کر خود سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ بھی بے حد متاثر ہوئے تھے، وہ قصیدہ یہ ہے:
’’شروع اس اللہ کے نام سے جس کے ہاں سے سورتیں نازل ہوئی ہیں اور سب تعریفیں اللہ ہی کو سزاوار ہیں، امابعد! اے عمر! اگر تو آپ جانتے ہیں کہ آپ کو کیا کرنا چاہیے اور کس سے بچنا چاہیے تو ضرور بچئے کہ احتیاط نفع دیتی ہے، تقدیر پر راضی رہو اور اس پر صبر کرو اگرچہ مقدر سے ناگواریاں بھی دیکھنی پڑیں۔ آدمی کتنی ہی خوش عیشی کی زندگی کیوں نہ گزار رہا ہو مگر اگلے ہی دن ایسے واقعات غیب سے پیش آجاتے ہیں جن سے ساری خوشی مکدر ہو جاتی ہے۔ جو بات معلوم نہ ہو اسے لوگوں سے پوچھ لیا کیجئے، کیونکہ خبر اور علم لا علمی کے اندھیرے کو کافور کر دیتا ہے۔ آدمی ٹھوکریں کھانے کے بعد ایک دن سنبھل جاتا ہے پر جاہل کو نصیحتیں اور عبرت کسی کام نہیں آتیں۔ ظالم اپنے مقصد میں کبھی کامیاب نہیں ہوتا جبکہ طالب حق کو اپنی مراد مل کر رہتی ہے اور وہ مظفر ومنصور ہو جاتا ہے۔ ہدایت میں دل کو شفا دینے والی عبرتیں ہیں جیسے موسم ربیع کی پہلی بارش ہر طرف ہریالی پھیلا دیتی ہے۔ تقویٰ سے آراستہ صاحبِ علم، تقوی سے بے بہرہ جاہل کی طرح نہیں ہوتا اور نہ بینا و دانا، اس اندھے جیسا ہوتا ہے جو بینائی سے محروم ہوتا ہے۔ ہدایت وہ عطیہ
[1] الکتاب الجامع لسیرۃ عمر: ۲/ ۶۱۲۔