کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 264
بلا شبہ خلافت امویہ میں شعراء کے ساتھ معاملہ کرنے کا یہ بالکل نیا انداز تھا، اس سے قبل شعراء امراء وسلاطین کی بے جا تعریفیں اور جھوٹی خوشامدیں کر کے ان سے جھولیاں بھر بھر کے انعام بٹورتے تھے۔ یہ شعراء ان امراء کی شان میں زمین وآسمان کے قلابے ملاتے تھے۔ اور وہ امراء بھی ان جھوٹی تعریفوں کے سننے کے کچھ عادی ہو گئے تھے۔ لیکن جب سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کادور آیا تو آپ نے شعراء کی اس دیرینہ جھوٹ پر مبنی عادت کو ختم کیا جس کا اندازہ مذکورہ بالا واقعہ سے خوب ہو سکتا ہے، چنانچہ آپ نے حسب عادت آنے والے شعراء پر یہ بات واضح کر دی کہ جھوٹی تعریف معاشرے کے اخلاق بگاڑ دیتی ہیں پھر ایسے معاشرے میں جھوٹ، فریب، نفاق دھوکا دہی اور ہر بداخلاقی کا راج ہو جاتا ہے۔ آپ نے اس بدعادت کا خاتمہ کیا مگر افسوس کہ آپ کی وفات کے بعد۔ یہی شعراء امراء وملوک کے درباروں میں دوبارہ اسی پرانی آن بان سے آنے جانے لگے تھے۔[1]
جریر نے اس بات کا خود اعتراف کیا کہ ان امراء کو دھوکا دینے اور کذب وافتراء کا امیر بنانے کے لیے شاعروں کے پیچھے دراصل شیطان کا عمل دخل ہوتا ہے، اور سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ شعراء کے اس شیطانی تصرف سے دور رہے ہیں۔[2]
۲۱۔ زہد و تقویٰ اور نیکی کے اشعار سے آپ کا متاثر ہونا اور ’’سابق بربری‘‘ کے ساتھ تعلق
سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے صرف ان شعراء کو اپنے قریب کیا جو زہد کی تعلیم پر مبنی اشعار کہتے تھے اور ان کے اشعار میں آخرت کی یاد، قیامت کا خوف اور موت کا تذکرہ ہوتا تھا، اس لیے سابق بربری[3] نامی شاعر آپ کے سب سے زیادہ قریب تھا۔ سابق اپنے اشعار میں آپ کو نصیحت کرتا تھا اور آپ اس کے شعر سن کر رو پڑتے تھے۔ ایک دن سابق نے آکر آپ کو چند شعر سنائے ان میں سے آخری اشعار یہ ہیں:
فکم من صحیح بات للموت آمنًا
أتتہ المنایا بغتۃبعدما ہجع
فلم یستطع إذ جاء ہ الموت بغتۃ
فرارًا ولا منہ بقوِّتہ امتنع
فأصبح تبکیہ النساء مقنّعا
ولا یسمع الداسعي وإن صوتہ رفع
[1] التاریخ الاسلامی: ۱۵/ ۱۷۴۔
[2] التاریخ الاسلامی: ۱۵/ ۱۷۴۔
[3] سابق ایک درویش منش شاعر تھا۔ اس کا کلام حکمت ونصیحت سے لبریز ہوتا تھا۔ یہ بنی امیہ کے موالی میں سے تھا۔ اور بربری اس کا لقب تھا، ناکہ یہ بربر قوم سے تھا۔ رقہ میں سکونت تھی، یہ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللّٰه سے ملنے آتا تھا۔ (سیر اعلام النبلاء: ۳/ ۶۹)