کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 261
بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (ہمارے لیے ہر امر میں) اسوہ ہیں۔‘‘ آپ نے پوچھا: ’’(بھلا شعراء میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لیے) کیسے (نمونہ ہیں)؟ عدی نے جواب دیا: ’’عباس بن مرداس سلمی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی (اشعار میں) مدح بیان کی تھی تو آپ نے اسے ایک جوڑا مرحمت فرما کر اس کی زبان بند کر دی تھی۔‘‘
آپ نے پوچھا: ’’عدی کیا تمہیں عباس بن مرداس کے کچھ اشعار یاد ہیں؟‘‘ عدی نے کہا، ہاں۔ پھر یہ اشعار سنائے:
رأیتک یا خیر البریۃکلہا
نشرت کتابًا جاء بالحق معلّمًا
شرعت لنا دین الہدی بعد جرنا
عن الحق لما أصبح الحق مظلمًا
ونورت بالتبیان أمراً مدلساً
وأطفأت بالقرآن ناراً تضرمًا
’’اے مخلوق خدا میں سے سب بہتر! میں نے آپ کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسی کتاب پھیلائی جو حق کی علامت لے کر آئی۔ جب ہم نے حق پر ظلم ڈھا کر حق پر ظلم کے اندھیرے کر دئیے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لیے دین ہدایت کو مشروع کیا۔ آپ نے مشتبہ امر کو بیان حق کے نور کے ساتھ روشن کر دیا اور قرآن کریم کی بدولت جہنم کی بھڑکتی آگ کو بجھا دیا۔‘‘
یہ اشعار سن کر آپ نے فرمایا: ’’عدی تیرا بھلا ہو! دروازے پر کون لوگ ہیں؟‘‘ عدی نے ان شعراء کے نام گنوانے شروع کر دیئے کہ دروازے پر عمر بن عبداللہ بن ربیعہ، فرزدق، اخطل اور جریر کھڑے ہیں۔ آپ نے سب کو واپس کر دیا اور صرف جریر کو اندر آنے کی اجازت دی۔ چنانچہ جریر اجازت ملنے پر یہ اشعار پڑھتا ہوا اندر داخل ہوا:
إن الذي بعث النبي محمدًا
جعل الخلافۃللإمام العادل
وسع الخلائق عدلہ ووفاؤہ
حتی أرعوی فأقام میل المائل
إني لأرجو منک خیرًا عاجلًا
والنفس مولعۃبحب العاجل
’’بے شک جس ذات نے جناب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی بنایا تھا اسی ذات نے خلافت ایک