کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 260
کھانے میں سے نہ کھاتے (جس پر انہیں بھی ساتھ کھانا پڑتا)۔ [1] ۲۰۔ سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ اور شعراء خلیفہ بننے کے بعد شعراء کا ایک وفد آپ سے ملنے آیا، وہ چند دن تک آپ کے دروازے پر کھڑا رہا مگر انہیں ملاقات کی اجازت نہ ملی۔ یہ صورت حال دیکھ کر ان لوگوں نے واپسی کا ارادہ کر لیا، اسی دوران شام کا مشہور خطیب رجاء بن حیوہ ان کے پاس سے گزرا، پس جب مشہور شاعر جریر نے رجاء کو آپ کے پاس داخل ہوتے دیکھا تو برجستہ یہ شعر پڑھا: یا أیہا الرجل المرخي عمامتہ ہذا زمانک فاستأذن لنا عمرا ’’اے بے خوف اور مطمئن شخص! اب تیرا زمانہ ہے ذرا عمر سے ہمارے لیے ملنے کی اجازت تو طلب کر۔‘‘ رجاء اندر تو گیا مگر اس نے ان شعراء کے بارے میں کوئی بات نہ کی، اتنے میں شعراء کے اس وفد کے پاس سے عدی بن ارطاۃ گزرا تو جریر نے پھر فی البدیہہ یہ اشعار پڑھے: یا أیہا الرجل المرخي مطیتہ ہذا زمانک إني قد مضی زمني أبلغ خلیفتنا إن کنت لاقیہ أنَّی لدی الباب کالمصفود في قرن لا تنس حاجتنا لقّیت مغفرۃ قد طال مکثي عن أہلي و عن طني ’’اے وہ شخص جس کی سواری کی لگامیں ڈھیلی ہیں اور وہ آزادانہ چل رہی ہے، اب تیرا زمانہ ہے اور میرا زمانہ بیت چکا ہے، اگر تیری خلیفہ سے ملاقات ہو تو اسے یہ خبر کر دینا کہ میں دروازے کے پاس گویا کہ رسیوں میں بندھا ہوں۔ (اور میری مشکیں کسی ہیں)۔ ہماری حاجت کو مت بھولنا جسے نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ ہمیں اپنے وطن اور اہل وعیال کو چھوڑے کافی وقت ہوگیا۔‘‘ (اور اب تک ہماری سنی نہیں گئی اور اب ہم واپس جانا چاہتے ہیں)۔‘‘ یہ اشعار سن کر عدی نے اندر جا کر آپ کی خدمت میں عرض کیا، ’’امیرالمومنین! شعراء آپ کے دروازے پر کھڑے دہائیاں دے رہے ہیں، ان کے تیر زہر آلود اور اقوال پر اثر ہیں۔‘‘ یہ سن کر آپ نے فرمایا: ’’اے عدی تیرا بھلا ہو! بھلا میرا شعراء سے کیا واسطہ۔‘‘ عدی بولے: ’’اللہ امیرالمومنین کو عزت دے!
[1] حلیۃ الاولیاء: ۵/ ۳۱۵، ۳۱۶۔