کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 259
آپ امت کے احوال کی جستجو میں از حد مبالغہ سے کام لیتے تھے۔ پھر آپ کا اس قدر رونا اس بات کی دلیل تھا کہ آپ کے دل میں رب تعالیٰ کا بے حد خوف تھا۔ اسی خوف خداوندی نے آپ کو ہر قسم کے ظلم وستم اور نا انصافی سے محفوظ رکھا۔ اس خوف نے آپ کے فکر وسلوک کو فتنہ انگیزیوں اور عیش پرستیوں سے بلند کر دیا اور آپ ہر قسم کے چیلنج کے سامنے سینہ سپر ہو کر کھڑے ہوگئے۔ چنانچہ جب بھی آپ پر کوئی بڑی مصیبت آپڑتی آپ لوگوں میں خطبہ دیتے اور ان کے سامنے جنت و دوزخ کا ذکر کرتے جس سے وہ مصیبت ہلکی پڑ جاتی اور بڑی سے بڑی بات بھی آپ کی نگاہوں میں چھوٹی ہو جاتی۔[1] ۱۸۔ بوڑھے تنگدست ذمی پر مال خرچ کرنا اسلام بردباری، رحمت وشفقت، سماحت ورواداری، چشم پوشی عفو و در گزر اور کمزوروں کی خبر گیری اور ہمدردی وغمگساری کا مذہب ہے۔ اسلام کے دل میں روئے زمین پر بسنے والے ہر انسان کی ہمدردی ہے، چاہے اس کا تعلق اسلام سے نہ بھی ہو۔ سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے دین اسلام کے احکام کی عملی تطبیق کے ذریعے ان بلند اقدار کو جیتا جاگتا وجود بخشا، چنانچہ آپ نے اس بات کا حکم جاری کیا کہ جو ذمی بھی بوڑھا ہو جائے اور اس کے پاس نہ تو قابل گزران سرمایہ ہو اور نہ اس پر خرچ کرنے والا کوئی دوست اور ساتھی ہی ہو تو اس کے لیے بیت المال سے وظیفہ جاری کیا جائے۔[2] ابن سعد کی روایت ہے کہ عمر بن بہرام مَرَّاف کہتے ہیں: ’’ہمارے پاس سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا خط پہنچا اور ہمیں پڑھ کر سنایا گیا جس میں یہ لکھا تھا: ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم، اللہ کے بندے امیرالمومنین کی طرف سے عدی بن ارطاۃ اور وہاں کے مومنین ومسلمین کے نام۔ السلام علیکم! میں تم لوگوں کے سامنے اس اللہ کی تعریف بیان کرتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ امابعد! ’’اہل ذمہ کے احوال میں غور کرو، ان کے ساتھ نرمی کرو اور جب کوئی ان میں سے بوڑھا ہو جائے اور اس کے پاس مال بھی نہ ہو جو وہ اپنے اوپر خرچ کر سکے۔ تو اگر تو اس کا کوئی دوست ہے تو اسے حکم دو کہ وہ اس بوڑھے ذمی پر خرچ کرے (وگرنہ بیت المال سے اس کا وظیفہ جاری کر دو)۔ [3] ۱۹۔ اہل کتاب کے ساتھ کھانا کھانا آپ اپنے مال سے ایک درہم روزانہ مسکینوں کے کھانے پر خرچ کرتے تھے، پھر ان کے ساتھ مل کر کھاتے بھی تھے۔ آپ ذمیوں کے پاس بھی جاتے، وہ لوگ آپ کے سامنے میتھی یا کسی سبزی کا بنا سالن پیش کرتے تو اسے تناول فرما لیتے اور انہیں بھی ساتھ مل کر کھانے کو کہتے اور اگر وہ انکار کرتے تو پھر آپ بھی اس
[1] التاریخ الاسلامی: ۱۵/ ۱۰۸۔ [2] فقہ عمر بن عبدالعزیز: ۲/ ۳۵۳۔ [3] الطبقات الکبری: ۵/ ۳۸۰۔