کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 258
رات بھر روتے اور جاگتے رہے تھے، دوسرے آپ نے بنا کچھ کھائے پیئے روزہ بھی رکھ لیا۔ تب میں ذرا قریب گئی اور دھیرے سے پوچھا ’’اے امیرالمومنین! کیا بات ہے رات بھر اس بے قراری میں گزارنے کی کیا وجہ ہوئی؟‘‘
تو فرمانے لگے: ’’مجھے اکیلا چھوڑ دو، بہتر ہے کہ تم اپنا کوئی کام کر لو۔‘‘ میں نے عرض کیا: ’’ میں چاہتی ہوں کہ مجھے بھی نصیحت ہو۔‘‘ تب آپ نے فرمایا: ’’ٹھیک ہے پھر میں تمہیں بتلاتا ہوں، سنو! میں نے خود پر غور کیا تو دیکھا کہ مجھے امت کے سرخ و سیاہ افراد کا والی بنا دیا گیا ہے۔ پھر میں نے دور دراز علاقوں اور بعید مسافتوں کے بلا دو امصار، بھوکے فقیروں، بھٹکے مسافروں، مظلوم ومقہور قیدیوں، عیال دار تنگدستوں اور ان جیسے دوسرے لوگوں کو یاد کیا تو مجھ پر یہ حقیقت منکشف ہوئی کہ رب تعالیٰ مجھ سے ان سب کے بارے میں سوال کرے گا۔ اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سب کے بارے میں مجھ پر حجت فرمائیں گے اور ان کی طرف سے مجھ سے جھگڑیں گے۔ تو میں بے حد خوف زدہ ہوگیا کہ شاید رب تعالیٰ ان لوگوں کی بابت میری عذر معذرت کو شرف قبولیت سے نہ نوازیں اور نہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور میں کوئی دلیل پیش کر سکوں۔ پس اے فاطمہ! مجھے خود پر بے حد رحم آیا حتیٰ کہ میں خود پر رو پڑا اور میرا دل دکھنے لگا، میں جتنا اس بات کو یاد کرتا ہوں میرا خوف اور بھی بڑھتا جاتا ہے۔ اب چاہو تو اس بات سے نصیحت پکڑو اور چاہو تو نہ پکڑو۔‘‘[1]
بلا شبہ سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا اپنے اوپر آپڑنے والی اس ذمہ داری کا یہ بے حد شدت کے ساتھ احساس کرنا تھا، اور باوجودیکہ آپ امت کے احوال جاننے کے لیے پیہم کوششیں کرتے رہتے تھے اور ان کی حاجات وضروریات پوری کرنے کے لیے پوری تن دہی کے ساتھ لگے رہتے تھے لیکن پھر بھی امت کے حاجت مندوں اور کمزوروں کو یاد کر کر کے روتے رہتے تھے۔ لیکن چونکہ اس امر کا دائرہ غیر محصور اور بے حد وسیع تھا بلکہ واقعاتی حقائق کی رو سے ایک فرد واحد کی دسترس سے بہر حال باہر تھا اور اس بات کا قوی امکان تھا کہ شاید کسی مسلمان کی حاجت رفع ہونے سے رہ جائے، اس سب کے باوجود آپ یہ سمجھتے تھے کہ کہیں مجھ سے اس کے بارے میں روزِ قیامت سوال نہ ہو جائے اور میں جواب میں کچھ بھی کہنے کے قابل نہ ہوں۔ بس اسی احساس نے آپ کو رونے پر مجبور کر دیا تھا۔
سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا روزِ قیامت کے حساب کو اس شدت کے ساتھ یاد کرنا اور جنت اور دوزخ کو ہر وقت نگاہوں کے سامنے رکھنا اس بات کی دلیل ہے کہ آپ کا غیب پر گہرا ایمان تھا گویا کہ جنت و دوزخ آپ کے سامنے مشاہد تھی۔ چنانچہ اسی بات اور اسی احساس نے آپ کو سراپا عدل ورحمت بنا دیا تھا اور
[1] سیرۃ عمر لابن عبدالحکم: ۱۷۰۔