کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 257
ایک دوسرے میں گھل مل کر بیٹھ گئے۔[1]
قصہ یہ ہے کہ سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے مبارک دور حکومت کے بعد بعض والیوں اور حکمرانوں نے معاشرے کے بعض طبقات کو نشست و برخاست اور عطا میں دوسروں پر امتیاز دینا شروع کر دیا تھا۔ یہ بات معاشرے میں اس قدر جڑ پکڑ گئی کہ بعض لوگوں نے یہ سمجھنا شروع کر دیا کہ ہم تو معاشرے کے ممتاز طبقات اور اشراف کے ساتھ بیٹھنے کے لائق ہی نہیں، حتیٰ کہ انہیں مسجد کے ماحول میں بھی جہاں رب کے آگے سب ایک ہوتے ہیں اور جہاں ہر مسلمان پر یہ فرض ہوتا ہے کہ وہ امام کے قریب ہونے کی کوشش کرے کیونکہ اس میں زیادہ ثواب ہے، ان نام نہاد ’’اشراف‘‘ کے ساتھ گھل مل کر بیٹھنے کی جرأت نہ ہوتی تھی۔ لیکن جب عنان خلافت آپ کے ہاتھوں میں آئی تو آپ نے اس بات کا سب سے زیادہ اہتمام کیا کہ معاشرے کے مختلف طبقات کو، امیر غریب کو، حکام اور رعایا کو ایک دوسرے کے قریب کیا جائے۔ اس کی صورت آپ نے یہ اختیار کی کہ اونچے درجات و طبقات کے لوگوں کی خود ساختہ شہرت کا معیار گرایا، ان کے اندر کے کبر اور فخر کو مٹایا، اور کمزور اور کس مپرس طبقہ کی عزت میں اضافہ کیا، ان کی صلاحیتوں کو اجاگر کر کے ان کے دماغوں سے اس احساس کو ختم کیا کہ تم معاشرے کا کمزور یا حقیر طبقہ ہو، چنانچہ آپ نے اس مقصد کو بام مراد تک پہنچانے کے لیے سرکاری وظائف کے دینے میں طبقاتی اونچ نیچ کا خاتمہ کر کے سب کو ایک ترازو میں تولا، اور شریف و رذیل سب کا وظیفہ مساوی مقرر کیا۔ یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ لوگوں کی شان گھٹانے یا بڑھانے میں مال کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ یونس بن ابی شبیب کا بیان کردہ یہ واقعہ اس حقیقت کو عیاں کرتا ہے کہ آپ کو اس بات کا بے حد اہتمام تھا، اس لیے آپ نے عید گاہ کے کھلے میدان میں علی رؤوس الاشہاد فقراء اور نچلے طبقے کے لوگوں کو اشارہ کر کے آگے آنے کو کہا تاکہ وہ خواص کے قریب آئیں اور ان میں گھل مل کر بیٹھیں اور تاکہ گزشتہ والیوں کی بدنظمی اور ظالمانہ رویے سے پیدا ہونے والا یہ طبقاتی خلا ختم ہو۔[2]
۱۷۔ معاشرے کے افراد کی ذمہ داری کا شدت کے ساتھ احساس واہتمام
آپ کی اہلیہ فاطمہ بنت عبدالملک کہتی ہیں کہ ’’آپ نے خود کو مسلمانوں کے لیے وقف کر دیا ہوا تھا۔ آپ کا دل و دماغ مسلمانوں کے امور کے لیے ہر وقت فارغ رہتا تھا۔ جب کام کا ہجوم زیادہ ہوتا تو شام کی بجائے رات کو گھر لوٹتے۔ اسی طرح ایک دن حسب معمول آپ روز مرہ کے کاموں کو نبٹا کر شام کو گھر آئے تو اپنا ذاتی چراغ منگوایا۔ پھر دو رکعت نماز پڑھی اور سر ہتھیلی پر رکھ کر بیٹھے رونے لگے، حتیٰ کہ رخسار اور داڑھی آنسوؤں سے تر ہوگئی، پھر سسکیاں اور پھر ہچکیاں لے کر رونے لگے، یوں لگتا تھا کہ مارے غم کے ابھی ان کا دل پھٹ جائے گا۔ اور روح و بدن کا یہ رشتہ بس ٹوٹنے کو ہے۔ روتے روتے صبح کا چاند ناپھیل گیا اب ایک تو
[1] طبقات ابن سعد: ۵/ ۳۸۷۔
[2] التاریخ الاسلامی: ۱۴/ ۱۵/ ۱۴۰۔