کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 256
سے کاروبار کر کے اب وہ باعزت زندگی بسر کر رہے تھے حتیٰ کہ ان کی بعض سخت کاموں سے جان چھوٹ گئی جن کے بدلے میں انہیں معمولی رقوم ملتی تھیں جس سے ان کی گزر بسر بے حد دشوار ہوتی تھی (مگر اب وہ آسودہ اور باوقار زندگی گزار رہے تھے)۔ [1]
۱۵۔ بیت المال سے مہروں کی ادائیگی
آپ نے ان لوگوں کا مہر بھی بیت المال سے ادا کرنے کا اہتمام کیا جو اپنے مہر ادا کرنے سے عاجز تھے۔ ابو العلاء روایت کرتے ہیں : ’’کوفہ کی جامع مسجد میں سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا خط پڑھ کر سنایا گیا، اس کے سننے والوں میں میں بھی تھا، وہ خط یہ تھا ’’جس کے ذمے کوئی امانت ہو اور وہ اس کو ادا کرنے سے عاجز ہو تو اسے اللہ کے مال سے (یعنی بیت المال سے) دو (تاکہ وہ اپنے ذمے امانت کو ادا کر سکے)۔ اور جس نے کسی عورت سے شادی کی اور اب وہ مہر ادا نہیں کر سکتا تو اس کو اللہ کے مال میں سے دو۔‘‘[2]
بے شک معاشرے کی اصلاح کے لیے یہ ایک نہایت اہم اقدام ہے کیونکہ معاشرے کی اصلاح اس کے افراد کی پاکدامنی پر موقوف ہے اور پاکدامنی کا انحصار رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے پر ہے۔ چنانچہ جس قدر کسی معاشرے میں نکاح کے مواقع عام اور میسر ہوں گے اس معاشرے کی عفت وپاکدامنی اور شرم وحیا کا معیار بھی اسی قدر بلند ہوتا چلا جائے گا۔ کیونکہ بسا اوقات تنگدست مردوں کو مہر ادا کرنا از حد دشوار ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ بغیر نکاح کے زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ بالخصوص جب معاشرے میں مہر کے نام پر بھاری رقوم مقرر کرنے کا چلن ہو تو تنگدستوں کے لیے نکاح تک دسترس اور بھی دشوار ہو جاتی ہے۔ لیکن جب خود اسلامی حکومت ایسے تنگدستوں کی سرپرستی کرے گی اور ان کے مہروں کی ادائیگی اپنے ذمے لے کر ان کی نکاح تک رسائی کو آسان بنائے گی تو یقینا معاشرے کا ہر فرد ایک ’’صالح معاشرہ‘‘ بنانے میں اور اس کو بدکاری اور بے حیائی کے بگاڑ اور فساد سے بچانے میں اپنا اپنا کردار ادا کرے گا۔‘‘[3]
۱۶۔ معاشرے کے مختلف طبقات کو ایک دوسرے کے قریب لانے کی کوششیں:
یونس بن ابی شبیب راوی ہیں وہ کہتے ہیں کہ ’’ایک عید پر میں سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے پاس تھا، اتنے میں بعض اشراف آئے اور انہوں نے منبر کے گرد گھیرا ڈال دیا۔ پھر ان کے اور باقی لوگوں کے درمیان کچھ جگہ خالی چھوڑ دی گئی تاکہ وہ دوسروں سے ممتاز نظر آئیں۔ جب نماز عید کا وقت ہوا تو آپ تشریف لائے، منبر پر رونق افروز ہوئے اور سب سے پہلے لوگوں کو سلام کیا۔ جب آپ نے اپنے سامنے خالی جگہ دیکھی تو لوگوں کو آگے بڑھ کر خالی جگہ پر کر دینے کا اشارہ کیا۔ چنانچہ وہ لوگ آگے بڑھے یہاں تک سب
[1] التاریخ الاسلامی: ۱۵/ ۱۳۸۔
[2] طبقات ابن سعد: ۵/ ۳۷۴۔
[3] التاریخ الاسلامی: ۱۵/ ۱۳۹۔