کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 255
غائب ہوا ہو (اور اس کے لوٹنے کی بھی امید ہو) تو اس کا وظیفہ مقرر کر دو اور جس کے لوٹنے کی امید نہ ہو اس کا وظیفہ بند کر دو یہاں تک کہ لوٹ آئے یا اس کے مرنے کی خبر آپہنچے یا وہ تمہارے پاس ایک وکیل بھیجے جو گواہوں سے ثابت کر دے کہ وہ ابھی تک زندہ ہے تو اس کا وظیفہ اس کے وکیل کو دے دو۔‘‘[1] دراصل آپ نے وظائف کی بابت اس اسلامی طریقہ کو زندہ کیا تھا جو حضرات خلفائے راشدین مہدیین اور سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہم کے دورِ مسعود میں رائج تھا، لیکن افسوس کہ بعد میں یہ طریقہ ناپید ہوگیا اور سرکاری وظائف سے صرف خاص خاص لوگوں کو نوازنے کا سلسلہ جاری ہوگیا۔ چنانچہ بنو امیہ تنخواہوں کی مد میں بے پناہ وظائف لیتے تھے۔ لیکن سیّدنا امیرالمومنین عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے آکر یہ عظیم کارنامہ سر انجام دیا کہ ان وظائف میں امت مسلمہ کے سب افراد کو شامل کیا۔ بلا شبہ یہ آپ کا زبردست تجدیدی اور اصلاحی کارنامہ تھا۔[2] ۱۴۔ محتاجوں کو سوال کرنے سے غنی کر دینا ایک دفعہ آپ نے مدینہ کے ایک آدمی سے مدینہ والوں کے احوال دریافت کیے اور پوچھا: ’’فلاں فلاں گھر میں رہنے والے مسکینوں کا کیا بنا؟‘‘ اس نے بتلایا کہ اے امیرالمومنین! وہ اس گھر کو چھوڑ گئے۔ پھر آپ نے ایک گھر میں رہنے والے مسکینوں کے بارے میں پوچھا تو اس نے بتلایا کہ وہ بھی اس گھر کو چھوڑ گئے ہیں، اللہ نے ان کو غنی کر دیا ہے اور اب تو ان میں سے بعض کا اچھا خاصا کاروبار بھی ہے وہ آنے جانے والے مسافروں کو اونٹوں کا چارہ بیچتے ہیں (وہ خبط نامی پتوں کا کاروبار کرتے تھے جن کو اونٹ بڑے شوق سے کھاتے ہیں)۔ [3] پھر آپ نے ان میں سے بعض کو ڈھونڈ کر ان کے ساتھ ملاقات کی۔ اور ان کے احوال دریافت کیے تو وہ کہنے لگے کہ اللہ نے بڑا کرم کیا کہ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے ہمیں امداد کی مد میں جو رقم دی تھی اس سے کاروبار کر کے اللہ نے ہمیں غنی کر دیا۔[4] یہ تھے سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے عادلانہ منہج کے نتائج جو آپ نے مسلمانوں کے اموال کی تقسیم میں اختیار کیا تھا۔ چنانچہ وہ مٹھی بھر لوگ جو پورے سرکاری خزانے کے مالک بنے بیٹھے تھے اور عیش اڑا رہے تھے، انہیں ان سب فضول خرچیوں سے بالکلیہ منع کر دیا گیا۔ اب جتنی رقم ان میں سے صرف ایک فرد ادھر ادھر خرچ کر کے اڑا دیا کرتا تھا، اس سے بیسیوں خاندانوں کی کفالت ہونے لگی۔ اب سرکاری خزانے کی رقوم ہر اس عام آدمی تک بھی پہنچنے لگیں تھیں جس کی اس سے قبل سرکاری خزانے تک رسائی تک نہ تھی۔ اور ان رقوم
[1] طبقات ابن سعد: ۵/ ۳۴۸۔ [2] التاریخ الاسلامی: ۱۵/ ۱۳۸۔ [3] خبط درخت کے پتوں کی ایک قسم جسے اونٹ کھاتے ہیں۔ (درخت سے جھاڑے ہوئے پتے القاموس الوحید: ص ۴۰۷ (مترجم) [4] الکتاب الجامع لسیرۃ عمر بن عبدالعزیز: ۱/ ۱۵۱۔