کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 254
نے پاس رکھا ایک ٹوکرا اٹھایا جس میں کچھ انگور تھے۔ آپ اس میں سے انگور کے اچھے اچھے دانے چن کر فاطمہ کو دیتے رہے۔ پھر اس عراقی عورت کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا: ’’بی بی بتلاؤ تمہاری کیا حاجت ہے؟ بولی: ’’عراق سے آئی ہوں، پانچ بیٹیاں گھر میں بیٹھی ہیں، شریف زادیاں ہیں اور کوئی ان کا سرپرست نہیں آپ کے پاس فریاد لے کر آئی ہوں کہ ان پر کوئی نظر شفقت کیجئے۔‘‘ یہ سن کر آپ رونے لگے۔ پھر آپ نے کاغذ قلم لیا اور والی عراق کو خط لکھنے لگے۔ چنانچہ پوچھا: ’’سب سے بڑی بیٹی کا نام بتلاؤ، اس نے نام بتلایا تو آپ نے اس کے نام کا ایک وظیفہ لکھ دیا۔عورت نے اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے الحمد للہ کہا۔ اس طرح دوسری اور تیسری بیٹی کی دفعہ بھی ہوا۔ آپ نام پوچھتے وہ نام بتلاتی تو آپ اس کا وظیفہ لکھ دیتے جس پر وہ عورت الحمد للہ کہہ دیتی۔ جب آپ نے چوتھی بیٹی کا نام پوچھنے کے بعد اس کا وظیفہ لکھا تو وہ عورت فرط مسرت سے گھبرا کر آپ کو دعا دینے لگی۔ اس پر آپ نے قلم اٹھا لیا اور فرمایا: ’’ہم ان لڑکیوں کے لیے وظیفہ مقرر کرتے رہے کیونکہ تم اس ذات کی حمد کرتی رہی جو حمد کی اہل ہے۔ (اب جب کہ تم نے اس ذات کی بجائے میری حمد بیان کرنی شروع کر دی ہے تو ہم تمہاری پانچویں بیٹی کے لیے کوئی وظیفہ مقرر نہ کریں گے) اس لیے تم اپنی ان چار بیٹیوں سے کہو کہ وہ اپنے اپنے وظیفہ میں سے اس کو بھی کچھ دے دیا کریں۔‘‘ وہ عورت آپ کا یہ خط لے کر عراق پہنچی اور اسے والی کے سپرد کیا۔ والی وہ خط لے کر زارو قطار رونے لگا اور بولا ’’اللہ اس خط لکھنے والے پر رحم کرے۔‘‘ اس پر وہ عورت بولی ’’کیا ان کا انتقال ہوگیا ہے؟‘‘ والی نے کہا ’’ہاں!‘‘ اس پر وہ بھی بے قرار ہو کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی (اور سمجھی کہ شاید اب میری بیٹیوں کو وظیفہ جاری نہ ہوگا)۔ والی عراق نے اس کی بے قراری دیکھ کر کہا ’’گھبراؤ نہیں، میں ان کے حکم نامے کی کسی بات کو ردّ نہ کروں گا۔‘‘ چنانچہ والی عراق نے سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے فرمان کے مطابق اس کی چاروں بیٹیوں کے لیے وظیفہ جاری کر دیا۔[1] ۱۳۔ سنت عطاء کا زندہ کرنا آپ نے فرمایا: ’’تمہارے لیے اپنے مردہ پیدا ہونے والے بچوں کے لیے کچھ لینا حلال نہیں۔ پس تم ہمیں لکھ بھیجو ہر اس بچے کے بارے میں جو زندہ پیدا ہوا ہے اور ابھی تک اس کی ماں حالت نفاس میں ہے تو ہم اس کا وظیفہ مقرر کر دیں گے۔‘‘[2] ابن سعد کی ایک روایت میں ابوبکر بن حزم کا قول ہے وہ کہتے ہیں: ’’ہم قیدیوں کو حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے خط کے مطابق وظائف دیا کرتے تھے، آپ نے مجھے یہ خط لکھا تھا کہ ’’جو ابھی ابھی
[1] سیرۃ عمر لابن عبدالحکم: ۱۶۹۔ [2] طبقات ابن سعد: ۵/ ۳۴۶۔