کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 253
سیّدنا عمر رحمہ اللہ کا خط اسے تھما دیا۔ خط پڑھ کر حاکم بولا: ہم اس نیک آدمی کو ایسا نہیں کرنے دیں گے بلکہ اس نابینا کو اس کے حوالے کریں گے۔‘‘ قاصد کہتا ہے کہ ’’میں اس نابینے کے بازیاب ہونے کے انتظار میں وہیں ٹھہر گیا۔ پھر ایک دن میں نے رومی حاکم کو دیکھا کہ وہ افسردہ چہرے کے ساتھ تخت سے اتر کر زمین پر بیٹھا ہے۔ مجھے دیکھ کر کہنے لگا ’’جانتے ہو میں اس طرح کیوں بیٹھا ہوں؟ میں نے کہا ’’نہیں۔‘‘ اور یوں ظاہر کیا کہ جیسے میں نے کچھ اندازہ نہیں کیا۔ بولا، ’’مجھے کہیں سے یہ خبر پہنچی ہے کہ وہ خدا کا نیک بندہ (یعنی عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ ) فوت ہوگیا ہے۔ میں اسی کے غم میں زمین پر بیٹھا ہوں۔‘‘ پھر کہنے لگا: ’’بے شک رب کا کوئی نیک بندہ جب برے لوگوں میں ہوتا ہے تو وہ ان میں زیادہ دیر نہیں ٹھہرتا حتیٰ کہ انہیں چھوڑ جاتا ہے۔‘‘ رومی حاکم کا جواب سن کر میں نے اس سے واپس جانے کی اجازت مانگی۔ کیونکہ اب میں اس بات سے مایوس ہو گیا تھا کہ وہ اس نابینا کو میرے ساتھ روانہ کرے گا، اس پر رومی حاکم بولا، ’’میں ایسا ہرگز نہ کروں گا کہ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی جس بات کو اس کی زندگی میں تسلیم کر لیا تھا کہ اس کے مرنے کے بعد اس سے پیچھے ہٹ جاؤں۔‘‘ چنانچہ رومی حاکم نے وہ نابینا میرے ساتھ کر دیا اور میں اس کے ساتھ واپسی کے لیے چل پڑا۔[1]
۱۲۔ ایک عراقی عورت کا قصہ جس کی بیٹیوں کے لیے بیت المال سے وظیفہ مقرر کیا گیا
ایک عراقی عورت آپ کو ملنے آئی۔ جب وہ دروازے پر پہنچی تو پوچھا کہ ’’کیا امیرالمومنین کا کوئی دربان بھی ہے؟‘‘ لوگوں نے بتلایا نہیں۔ لہٰذا اگر تم چاہو تو اندر چلی جاؤ۔ اس پر وہ عورت آپ کی اہلیہ فاطمہ بنت عبدالملک کے پاس چلی گئی۔ وہ اس وقت گھر میں بیٹھی چرخہ کات رہی تھیں۔ عورت نے سلام کیا۔ فاطمہ نے سلام کا جواب دے کر اندر آنے کو کہا۔ جب عورت بیٹھ گئی تو گھر بھر میں نظر دوڑائی۔ وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئی امیرالمومنین کے گھر میں قابل ذکر کوئی چیز نہ تھی۔ پھر بولی: ’’میں تو اس لیے آئی تھی کہ شاید یہاں سے کچھ مل جائے جس سے میں اپنے گھر کی حالت سدھار لوں مگر یہ گھر تو میرے گھر سے بھی خستہ حال ہے۔‘‘ اس پر فاطمہ بولیں: ’’تیرے جیسی عورتوں کے گھروں کو آباد کرتے کرتے اس گھر کا یہ حال ہو گیا ہے۔‘‘ یہ گفتگو چل رہی تھی کہ آپ تشریف لے آئے اور گھر کی دیوار کے پاس بنے کنویں کے پاس تشریف لے گئے اور اس میں سے پانی نکال کر پاس پڑی مٹی کا گارا بنانے لگے۔ گارا بناتے ہوئے آپ بار بار اپنی اہلیہ فاطمہ کی طرف بھی دیکھتے رہے۔ اس پر وہ عراقی عورت کہنے لگی ’’بی بی! اس مزدور سے پردہ کرو، وہ بار بار تمہیں دیکھے جا رہا ہے۔‘‘ فاطمہ بولیں: ’’گھبراؤ نہیں! یہ مزدور نہیں بلکہ امیرالمومنین (اور میرے خاوند) ہیں۔‘‘ گارا بنانے کے بعد آپ سلام کرتے ہوئے اپنے کمرے میں چلے گئے۔ اور اندر بچھے مصلے کے پاس تشریف لے گئے۔ پھر فاطمہ سے آنے والی عورت کا پوچھا۔ فاطمہ نے بتلا دیا کہ عراق سے کوئی ضرورت مند عورت آئی ہے، پھر آپ
[1] سیرۃ عمر لابن عبدالحکم: ص ۱۶۸۔