کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 252
شخص مقروضہے تو اس کا قرضہ ضرور ادا کر دو۔[1] اس خط میں آپ حکم دے رہے ہیں کہ مقروض چاہے گھر بار، نوکر چاکر اور سواری کا مالک بھی ہو تب بھی اس کا قرضہ ادا کر دو بے شک یہ شفقت و رحمت، ہمدردی وغمگساری کا عظیم مظہر اور نمونہ ہے۔ اور یہ خط بتلاتا ہے کہ آپ کو رعایا کے امور کا کس قدر اہتمام تھا۔ عدل گستر اور انصاف پر اور امراء وحکام امت کے اموال کے ساتھ یہ رویہ اختیار کرتے ہیں کہ وہ ان اموال کے ذریعے فقیر کو غنی اور بے دست کو طاقتور بنا دیتے ہیں، اس کے ذریعے قیدیوں کو چھڑاتے ہیں، تنگدستوں کے قرض ادا کرتے ہیں اور بے بس کی ضرورتوں کو پورا کرتے ہیں۔[2] ۱۱۔ رومیوں کے ہاں قید ایک اندھے قیدی کی خبر گیری ایک موقعہ پر آپ نے روم کے حاکم کے پاس ایک قاصد بھیجا۔ واپسی پر وہ قاصد روم کا چکر لگاتا ہوا آیا، ایک بستی کے پاس سے گزرتے ہوئے اسے کسی کے قرآن پڑھنے کی آواز آئی۔ وہ چکی بھی پیس رہا تھا۔ قاصد نے اس کے پاس جا کر سلام کیا مگر اس نے جواب نہ دیا۔ قاصد نے دوبارہ اور سہ بارہ سلام کیا مگر اس شخص نے کوئی جواب نہ دیا۔ قاصد نے پھر سلام کر کے کہا کہ میں اس جگہ امان لے کر آیا ہوں ، میں عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا قاصد ہوں، تمہارا کیا معاملہ ہے؟ وہ بولا ’’میں فلاں فلاں جگہ سے گرفتار کیا گیا، پھر مجھے حاکم روم کے پاس پیش کیا گیا، اس نے مجھے نصرانی بن جانے کو کہا تو میں نے نصرانی بننے سے انکار کر دیا۔‘‘ اس پر حاکم روم نے کہا کہ اگر تم نصرانی نہ بنو گے تو ہم تیری آنکھوں میں سلائی پھیر کر تمہیں ہمیشہ کے لیے نابینا کر دیں گے۔‘‘ میں نے دین کی خاطر آنکھوں کو قربان کر دیا۔ چنانچہ ان لوگوں نے میری آنکھوں میں سلائی پھیر کر مجھے یہاں بھیج دیا ہے۔ اب روزانہ وہ میرے پاس گندم اور کھانا بھیجتے ہیں، چنانچہ گندم مجھے پیسنی ہوتی ہے اور کھانا میں کھا لیتا ہوں۔‘‘ قاصد نے لوٹ کر یہ سارا قصہ سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے گوش گزار کر دیا۔ قاصد کہتا ہے جب میں سارا ماجرا سنا چکا تو دیکھا کہ آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے جن سے آپ کی داڑھی اور دامن تک تر ہوگیا تھا۔ پھر آپ نے رومی حاکم کو یہ خط لکھا: ’’امابعد! مجھے فلاں بن فلاں کے بارے میں اس اس بات کا علم ہوا ہے۔ میں اللہ کی قسم کھاتا ہوں کہ اگر تم نے اسے میرے پاس نہ بھیجا تو میں تیری سرکوبی کے لیے ایسا لشکر روانہ کروں گا جس کا پہلا دستہ تیرے پاس تو آخری دستہ میرے پاس ہوگا۔‘‘ قاصد جب یہ خط لے کر رومی حاکم کے پاس پہنچا تو اس نے جلدی دوبارہ آنے کی وجہ پوچھی قاصد نے
[1] سیرۃ عمر لابن عبدالحکم: ص۱۶۳،۱۶۴۔ [2] التاریخ الاسلامی: ۱۵/ ۷۷۔