کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 251
’’امابعد! تم لوگ خود کو قیدی سمجھتے ہو معاذ اللہ! یہ بات ہر گزنہیں بلکہ تم تو اللہ کے رستے میں روکے گئے ہو۔ جان لوکہ میں جب بھی رعایا میں کوئی چیز تقسیم کرتاہوں تو تم لوگوں کے اہل خانہ کو دوسروں سے زیادہ اور دوسروں سے عمدہ چیز دیتا ہوں۔ میں نے تمہاری طرف (فی کس) پانچ دینار بھیجے ہیں۔ اللہ کی قسم! اگر مجھے یہ ڈر نہ ہوتا کہ اگر میں نے رقم زیادہ کردی تو بجائے تم لوگوں تک پہنچانے کے یہ سرکش رومی زیادہ رقم دیکھ کر اسے خود اپنے پاس رکھ لیں گے تو میں تم لوگوں کی یہ رقم اور زیادہ کر دیتا میں نے فلاں بن فلاں کو بھیجا ہے جو تمہارے چھوٹے بڑے، مرد عورت اور آزاد غلام سب کا منہ مانگا فدیہ دے کر تمہیں آزاد کرائے گا۔ پس تمہیں خوش خبری ہو، پھر خوش خبری ہو… والسلام علیکم[1] اس خط میں ایک طرف سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے بلند اخلاق کاایک عمدہ نمونہ نظر آتا ہے تو دوسری طرف آپ کے مسئولیت کے زبردست احساس کو بھی اجاگر کرتا ہے جو ایک مسلمان حاکم میں اعلیٰ درجہ پر ہونا چاہیے۔ جس کو اپنی رعایا کی بابت رب کا خوف ہو اور وہ ان کے حقوق کی بابت پورے اخلاق او رامانت کے ساتھ رب تعالیٰ کا تقویٰ رکھتا ہو۔ چنانچہ آپ نے روم میں پھنسے مسلمان قیدیوں کی غمگساری کرتے ہوئے انہیں اسلامی سرحدات پر پہرہ دینے والے مسلمان مجاہدین کے ساتھ تشبیہ دی۔ اور انہیں تسلی دی کہ تم لوگوں کو راہ خدا میں سرحدوں پر پہرا دینے والوں کے برابر اجر ملے گا۔ پھر اس معنوی غمگساری کے ساتھ ساتھ ان کی مالی ہمدردی بھی کی۔ چنانچہ ان کے غم میں تخفیف کرنے کے لیے انہیں دینار بھیجے۔ اور انہیں یہ بتلا کر ان کے دل کے غم کو اور بھی ہلکا کر دیا کہ آپ ان کے گھروں کی پوری پوری مالی کفالت کر رہے ہیں، ان کے پیچھے ان کے اہل خانہ کو کسی قسم کی مالی پریشانی لاحق نہیں۔ پھر ان سب سے اس بات کا وعدہ بھی کیا کہ بہت جلد آپ ان سب کو فدیہ دے کر قید سے چھڑا بھی لیں گے۔ یقینا جو لوگ اپنی جانوں کو لے کر اسلام کی نصرت وحمایت اور حفاظت و صیانت کے لیے نکلے تھے۔ وہ ایسے ہی کریمانہ سلوک کے مستحق تھے۔[2] ۱۰۔ مقروضوں کا قرض ادا کرنا: آپ نے اپنے عاملوں کو یہ بھی لکھ بھیجا کہ وہ مقروضوں کا قرض ادا کریں۔ اس پر ایک عامل نے آپ سے یہ پوچھا کہ اگر ایک شخص کا اپنا گھر ہو، پھر اس کا خادم اور گھر کا اثاثہ اور گھوڑا بھی ہو تو کیا ایسے مقروض کا قرض بھی ادا کر دیں۔ آپ نے اس سوال کا یہ جواب لکھ بھیجا: ’’ہر مسلمان کے پاس سر چھپانے کی جگہ ہونا ضروری ہے اور گھریلو کام کاج کے لیے ایک خادم ہونے میں بھی کوئی حرج نہیں اور جہاد کی غرض سے گھوڑا تو ہر ایک کے پاس ضرور ہونا چاہیے، روز مرہ کا ساز وسامان بھی ناگزیر ہے۔ اس سب کے باوجود بھی اگر ایک
[1] سیرۃ عمر لابن عبدالحکم،ص: ۱۶۳۔ ۱۶۴ [2] التاریخ الاسلامی: ۱۵/ ۷۷۔