کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 249
میں اونچے اور بڑے اخلاق کے لوگ لگے ہوتے ہیں۔[1] ۷۔ آدمی کا مرتبہ اس کی دو چھوٹی چیزوں کی بنا پر ہوتا ہے ایک دل اور دوسری زبان: اہل حجاز کا ایک وفد جس میں ایک نوجوان لڑکا بھی تھا۔ آپ کو خلافت کی مبارک دینے آیا۔ وفد نے طے کیا کہ بات یہ نوجوان لڑکا کرے گا۔ چنانچہ جب اس نے گفتگو شروع کی تو آپ نے فرمایا’’اے لڑکے ! ذرا ٹھہرا! اگر تم سے بڑی عمرکا کوئی آدمی بات کرے تو زیادہ مناسب ہوگا۔‘‘ اس پروہ لڑکا بولا’’امیر المومنین! آدمی کا مرتبہ اس کی دو چھوٹی چیزوں دل اور زبان کی وجہ سے ہوتا ہے جب اللہ کسی کو بولنے والی فصیح زبان اور یاد کرنے والا دل دے دے تو بے شک بات کرنے کا زیادہ مستحق وہی ہے۔امیر المومنین! اگر بڑائی عمر کی بنا پر ہوتی تو امت میں آپ سے بڑی عمر کے لوگوں کی کمی نہ تھی۔ (یعنی تخت خلافت پر بیٹھے کا آپ سے زیادہ مستحق وہ ہوتا جو عمر میں آپ سے بڑا ہوتا۔)[2] یہ جواب سن کر آپ نے فرمایا: ’’ٹھیک ہے اے لڑکے! تم ہی بات کرو، بولو کیا کہتے ہو۔‘‘ لڑکا اجازت ملنے پر کہنے لگا، جی ! امیر المومنین ! ہم مبارک دینے آئے ہیں ناکہ کسی مصیبت کی دہائی دینے یا ظلم کی فریاد کرنے آئے ہیں۔ ہم اس اللہ کی تعریف کرتے ہیں جس نے آپ کو ہمارا خلیفہ بنا کر ہم پر احسان کیا۔ ہم کسی چیز کی تمنا یا کسی بات کے ڈر سے نہیں آئے کہ ہماری مرادیں خود ہمارے دروازوں تک آپہنچی ہیں تو رغبت کس بات کی۔ اور آپ کے عدل نے ہمیں ظلم و ستم سے امان دے دی، تو ڈر کس بات کا [3] (غرض ہماے آنے کی وجہ ان دونوں باتوں میں سے کچھ بھی نہیں کہ یہ دونوں باتیں ہمیں یہاں آئے بغیر ہی مل گئی ہیں۔) آپ کو اس نوجوان کی فصاحت بے حد پسند آئی۔ آپ اس کے علم اور صواب رائے سے بے حد متاثر ہوئے۔ چنانچہ آپ نے اس لڑکے کی حوصلہ افزائی کرنے کے لیے اور اس میں زیاد خود اعتمادی پیدا کرنے کے لیے اس لڑکے سے کچھ نصیحت کرنے کو کہا تاکہ خلیفہ کے سامنے اسے اور بھی زیادہ سیکھنے کا موقعہ ملے۔ چنانچہ آپ نے فرمایا: ’’اے لڑکے! ہمیں کچھ نصیحت کرو ہاں بات مختصر کرنا۔‘‘ لڑکا بولا: اے امیر المومنین ! ٹھیک ہے! (تو سنیے! ) بعض لوگوں کو رب کی بردباری، طول امل اور لوگوں کی بے جاتعریف نے دھوکے میں ڈال دیا۔ پس آپ کو رب کی بردباری، طول امل اور لوگوں کی بے جا تعریف دھوکے میں نہ ڈالے کہ کہیں آپ کا قدم پھسل نہ جائے۔‘‘ پھر آپ نے لڑکے کو نگاہ بھر کے دیکھا تو وہ مشکل سے چودہ پندرہ سال کا تھا۔ اس پر آپ نے برجستہ یہ شعر پڑھا’’اے لڑکے! علم حاصل کرکہ کوئی باپ عالم نہیں جنتا(علم تو سیکھنا پڑتا ہے ناکہ کوئی مادر زاد
[1] التاریخ الاسلامی : ۱۵/۲۴ [2] النموذج الاداری،ص: ۷۹ [3] مروج الذہب:۳/۱۹۷