کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 248
اور’’امیرالمومنین‘‘ کہنا بھول گئے۔ یاد آنے پران الفاظ کے ساتھ دوبارہ سلام کیا، السلام علیک یا امیر المومنین! اس پر آپ نے زیاد سے فرمایا تمہارے پہلے والے سلام سے مجھے کچھ نقصان نہیں پہنچا، اس کے بعد آپ اپنی جگہ سے اتر کر زمین پر بیٹھ گئے۔ اور فرمایا: ’’مجھ پر یہ بات بے حد گراں ہے کہ میں ایک ایسی جگہ بیٹھوں جو زیاد سے اونچی ہو، پھرزیاد نے آنے کی غرض بتلائی اورچل دئیے۔ آپ نے خزانچی سے ارشاد فرمایا کہ زیاد کے لیے بیت المال کا دروازہ کھول دوتاکہ زیاد اور اس کے ساتھی جو ضرورت ہو وہ لے لیں۔ یہ سن کر خزانچی نے زیاد کی طرف حقارت بھری نظروں سے دیکھا کہ بھلا اس جیسے آدمی کے لیے خزانہ کا منہ کھول دیاجائے اور اسے خزانے پر مسلط بھی کردیا جائے تاکہ وہ جو چاہے بلاروک ٹوک لے لے۔ خزانچی زیاد کے مقام و مرتبہ سے ناآشنا تھا بہرحال اس نے امتثال امر میں ان کے لیے بیت المال کا دوروازہ کھول دیا اورزیاد اور ان کے ساتھی اندر داخل ہوئے لیکن اس وقت ا سکی حیرت کی انتہا نہ رہی جب اس نے دیکھا کہ ان سب لوگوں اسی یانو ے درہم سے زیادہ کچھ نہیں لیا۔ تب خزانچی خود سے گویا ہو کر کہنے لگا کہ ’’امیر المومنین ہی زیادہ بہتر جانتے ہیں کہ کس کو بیت المال پر مسلط کریں۔‘‘[1]
یہ واقعہ بتلاتا ہے کہ آپ علماء ربانی کے آگے کس قدر عاجزی اور انکساری کے ساتھ پیش آتے تھے۔ چنانچہ اوّل جب زیاد آپ کو خلیفہ کہنا بھو ل گئے تو آپ نے اس کی مطلق پروا نہ کی۔ حالانکہ یہ مسلمانوں کے نزدیک سب سے اعلیٰ لقب تھا اور یہی تو وہ منصب تھا جس پر بیٹھ کر وہ لوگ جو دنیاوی جاہ و مرتبہ کے دھوکے میں گرفتار ہوتے ہیں متعدد فتنوں کے جال میں پھنستے چلے جاتے ہیں لیکن جن کا ایمان قوی ہوتا ہے ان کی شخصیت عہدہ و منصب کے بدلنے سے بدل نہیں جاتی۔ بلکہ ان کی عاجزی و انکساری پہلے کی طرح باقی رہتی ہے بلکہ لوگوں کے احترام کے مقابلہ میں بسا اوقات اس عاجز ی میں اور بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔
دوم آپ اپنی جگہ سے نیچے اتر آئے تاکہ زیاد جیسے عالم ربانی سے ظاہری مقام و مرتبہ میں بھی اونچے نہ رہیں جو حضرت عبداللہ بن عیاش بن ابی ربیعہ کے آزاد کردہ غلام تھے۔ آپ نے اس عالم کے موالی میں سے ہونے کے باوجود ان کے مرتبہ کو نہ گھٹایا، کیونکہ اعتبار تقویٰ اور علم کا ہے ناکہ نسبی و خاندانی شرافتوں کا۔ پھر اس عالم ربانی کا کریمانہ رویہ بھی ملا حظ کیجئے کہ بیت المال پر آزادانہ تصرف مل جانے کے باوجود انہوں نے اسی یانوے درہم کی معمولی رقم سے زیادہ کچھ نہ لیا حالانکہ وہ چاہتے تو خلیفہ کی اجازت سے اس سے بھی زیادہ لے سکتے تھے۔ بے شک یہ زہد و ورع کی ایک بے حد بلند مثال ہے۔ جب نفس اونچے اور عقلیں پختہ ہوں تو وہ اس د نیا کو لینے سے استغناء برتتی ہیں جس کے حصول کی دوڑ میں ناقص عقلیں اور چھوٹے نفس لگے ہوتے ہیں اور ان پختہ عقلوں اورتربیت یافتہ نفسوں کا مطمع نظر آخرت کی وہ ابدی نعمتیں ہوتی ہیں جن کے پانے کی دوڑ
[1] سیرۃ عمرلابن عبد الحکم،ص:۵۳