کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 247
۶۔ اہل علم و فضل کی عزت وتوقیر:
امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے کہ سیّدنا قتادہ بن نعمان رضی اللہ عنہ کابیٹا سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ سے ملنے آیا۔جب آپ نے ان سے پوچھا کہ تم کون ہو؟ تو اس نے فی البدیہہ یہ اشعار پڑھے:
’’میں اس شخص کا بیٹا ہوں جس کی آنکھ اپنے حلقے سے نکل کر رخساروں پر آگری تھی۔ اور اس آنکھ کو یہ سعادت حاصل ہوئی کہ اسے حضرت رسالت مآب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک ہاتھوں سے دوبارہ اپنی جگہ پر اوربے حد احسن طریقہ سے رکھ دیاگیا۔ پھر وہ آنکھ بالکل پہلے کی طرح ہوگئی۔ پس کیا بات ہے اس آنکھ کے حسن کی اور کیا خوبی ہے اس کے دوبارہ اپنی پہلی جگہ پر رکھے جانے کی۔‘‘
اس پر آپ نے بھی یہ شعر پڑھا:
’’یہ اخلاق دودھ کے وہ دو پیالے نہیں جو پینے کے بعد پیشاب بن جاتے ہیں۔‘‘
اس کے بعد آپ نے ان کا بے حد اکرام و اعزاز کیا اور انہیں انعام سے نوازا۔[1]
اس واقعہ سے حضرت عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے بلند اخلاق کا بخوبی اندازہ کیاجاسکتا ہے کہ یہ معلوم ہوتے ہی کہ وہ صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت قتادہ بن نعمان رضی اللہ عنہ کے فرزندِ ارجمند ہیں اپ نے ان کے اکرام واعزاز کی انتہا کردی۔ کیونکہ آپ اہل فضل کی بے انتہا عزت کرتے تھے اور اسلام اور مسلمانوں کی خدمت میں ہمیشہ پیش پیش رہتے تھے۔آپ نے یہ واقعہ سن کر کہ سیّدنا قتادہ بن نعمان رضی اللہ عنہ کی ایک آنکھ کافروں کے ہاتھوں زخمی ہو کر باہر نکل آئی تھی، اس بات کا بخوبی اندازہ کر لیا تھا کہ سیّدنا قتادہ رضی اللہ عنہ کیسے بہادر اور مرد میدان مجاہد تھے اور کیسے دشمنوں کی صفوں میں گھس کر قتال کرتے تھے۔ اور دشمنوں کی بانہوں میں بانہیں ڈال کر لڑتے تھے، تبھی تو کسی نامراد کا اوچھاوار پڑنے پر آنکھ اپنے حلقے سے باہر آگئی تھی۔بھلا دور رہ کر جنگ کا منظر دیکھنے والے کے بدن پر خراش تک بھی آسکتی ہے ؟ ایسے زخم انہیں ہی لگتے ہیں جو سینہ سپر ہو کر اور جان ہتھیلی پر رکھ کر دشمنوں کی صفوں میں دیوانہ وار جاگھستے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دستِ مبارک سے اس معجزہ کے ظہور کی سعادت بھی ملی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس آنکھ کو اپنی جگہ واپس رکھنے سے وہ بنا کسی دوا دارو اور علاج معالجہ کے بالکل تندرست ہوگئی۔ [2] غرض ان پہلوئوں کو سوچ کر آپ کو سیدنا قتادہ رضی اللہ عنہ کی عزت و بزرگی اور شرافت و کرامت کا بے حد احساس ہوا، جس کا اثر آپ کے اس حسن سلوک سے ظاہر ہواجو آپ نے ان کے بیٹے کے ساتھ کیا۔
اسی طرح ایک دفعہ زیاد مولی ابن عیاش اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ آپ سے ملنے آئے انہوں نے داخل ہونے کی اجازت مانگی تو آپ نے صرف زیاد کو داخل ہونے کی اجازت دی۔ زیاد اندر گئے، سلام کیا
[1] سیرۃ عمرلابن الجوزی،ص: ۹۶
[2] التاریخ الاسلامی:۱۵،۱۶/۲۳