کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 246
۵۔ لوگوں کو اپنے احترام میں کھڑے ہونے سے منع کرنا: آپ کے والی بننے کے بعد لوگ آپ کے احترام میں کھڑے ہوگئے۔ آپ نے فرمایا:’’ اے مسلمانوں کی جماعت! اگر تم کھڑے ہوگے تو ہم بھی کھڑے ہوں گے اور اگر تم بیٹھو گے تو ہم بھی بیٹھیں گے۔ بے شک لوگ اللہ رب العالمین کے لیے کھڑے ہوتے ہیں ، اللہ نے فرائض اور سنن کو مقرر کیاہے جو ان کو اختیار کرے گا وہ منزل کو پہنچ جائے گا اور جو ان کو چھوڑ ے گا وہ مٹا دیا جائے گا۔‘‘[1] آپ نے دراصل اس موروثی عادت کا خاتمہ کیاجو قیصر و کسریٰ کی نقالی میں مسلمان والیوں نے اختیار کی تھی، آپ نے اس بات کا پختہ ارادہ کیاکہ امت کو حضرات خلفائے راشدین کے منہج پر واپس لے آئیں۔ اس وقت آپ کو دوقوی محرکات کا سامنا تھاجو آپ کو اس بات پر مجبور کر رہے تھے کہ آپ خاندانی مظاہر، شاہی ناز نخروں اور شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ میں ان کا ساتھ دیں۔ ایک محرک یہ تھا کہ گزشتہ حکمرانوں کی طرح عوام اور رعایا کے دلوں میں حکومتی اور ریاستی رعب ودبدبہ قائم کیا جائے۔جبکہ دوسرا محرک یہ تھاکہ آپ کا خاندان آپ پر اس بات کا بے حد اصرار کررہا تھا کہ ان کی گزشتہ شاہ خرچیوں اور عیاشیوں کو اس طرح باقی رکھا جائے۔ آپ نے ان دونوں محرکات کانہایت جرأت اور حو صلے کے ساتھ مقابلہ کیا۔ رب تعالیٰ کا خوف اور اس کے اجر و ثواب کی رغبت نے آپ کو اس عاجزی اور انکساری پر ابھارا چنانچہ آپ نے اپنے لیے لوگوں کا کھڑا ہونا ہر گز پسند نہ کیا۔ آپ کو ہر وقت آخرت کی فکر دامن گیر رہتی تھی۔ آپ نے دنیاوی مستقبل کے لیے کبھی افراط و تفریط کا رستہ اختیار نہ کیا تھا۔ مال و دولت کے پر کشش مظاہر بھی آپ کی فکر آخرت پر غالب نہ آسکے۔ آپ نے خواہشات نفس کو لگام دے دی اور اپنے زاہدانہ رویے سے عیش وعشرت کے دلدادہ افرادِ خانہ کی زبانیں گنگ کر دیں۔ حتی کہ کسی کو آپ پر حرف گیری کا موقع نہ ملا ، آپ نے معاشرے کے غلط انداز فکر کو بدلا اور سمجھایا کہ عوام اور حکمرانوں کے درمیان تعلقات کی نوعیت کیا ہونی چاہیے اور خود حکمران طبقہ کی ذمہ داریاں کیا ہیں اس کو خوب واضح کیا۔ آپ کا یہ کہنا کہ اللہ نے چند فرائض مقرر کیے ہیں، دراصل یہ دنیا و آخرت کی حقیقی سعادت و شقاوت کے اساسی سبب کا بیان ہے۔ چنانچہ جو ان فرائض کی پابندی کرے گا وہ صلحاء اور متقین کے قافلہ سے جاملے گا اور ان کے اکرام واعزاز میں سے اسے بھی حصہ ملے گا او رروز قیامت اس خوش بخت جماعت کورب رحمان کی رضا ورضوان اور جنت کی طرف لے جایا جائے گا۔ان کا انجام نیک اور باعزت ہوگا۔[2]
[1] تاریخ دمشق نقلا عن التاریخ الاسلامی: ۱۵/۱۱۴ [2] التاریخ الاسلامی: ۱۵،۱۶/۱۱۵