کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 245
ایک آدمی ہو یا ایک کنبہ، ایک قبیلہ ہو یا اس سے بھی زیادہ لوگ ہوں۔ میں نے جو نصیحتیں تمہیں لکھ بھیجی ہیں ان کی طرف لوگوں کو بلائو کہ یہی سیدھا اور ہدایت کارستہ ہے جس میں کوئی خفاء نہیں۔ پھر اہل صلاح ونیکی او راہل ایمان اپنی زبانوں کے ساتھ تیری مدد کریں۔ بے شک اکثر لوگ نہیں جانتے۔ رب تعالیٰ سے استدعا ہے کہ وہ ہمارے دین میں اور ہماری باہمی محبت والفت میں اور آپس کے تعلقات میں بہتری پیدا کرے… والسلام ! [1]
سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ اپنے اس نہایت اہم خط میں اسلامی معاشرے میں پیدا ہوجانے والی ایک خطرناک اخلاقی برائی کی طرف اشارہ بھی کر رہے ہیں اور اس کا علاج بھی ذکر کر رہے ہیں جو اس وقت خطرات کا بادل بن کرافق اسلام پر چھائی ہوئی تھی۔ وہ یہ کہ مسلمانوں کی وہ جماعت جن کے دلوں میں ابھی تک اسلام اور ایمان راسخ نہ ہوا تھا اور اسلامی خطوط پر ان کے افکار و نظریات کی تعمیر بھی نہ ہوئی تھی، ان لوگوں نے آپس میں ایسے خاندانی اور قبائلی روابط قائم کر لیے جن کی بنیاد ’’جاہلی جذبات‘‘ تھے۔ چنانچہ ایک شخص یا ایک خاندان اٹھ کر دوسرے کا ہر حال میں ساتھ دے گا۔ چاہے معاملہ حق کا ہو یا باطل کا، عدل کا ہو یا ظلم کا۔ اور ہر فریق د وسرے فریق کا اس معاملے میں خیال بھی رکھے گا اور اس کا دفاع بھی کرے گا۔ اور اس کی دعوت بھی دے گا، یوں دونوں فریق اللہ کے لیے آپس میں بھائی بھائی بن جائیں گے۔ جبکہ اس سے پہلے وہ ایک دوسرے کے متحارب دشمن تھے۔ ا ور وہ اپنی جماعت کے ذریعے دنیا پر حکمرانی کریں گے۔ یہ مسئلہ اس قدر سنگین صورت حال اختیار کرگیا یہاں تک کہ بعض مجاہدین قبائلی دعوت کی بنیاد پر ایک دوسرے کے بر سرپیکار ہوگئے۔ اوریہی باہمی آویزش جہاد سے متاخر ہونے کاسبب بنتی چلی گئی۔ اور مفتوحہ علاقوں کے لوگ بار بار مسلمانوں کے ساتھ عہد شکنی کرنے لگے اور نوبت یہاں تک جا پہنچی کہ جب بھی ان علاقوں کے کسی قبیلہ کا ایک فرد والی بنتا تو وہ اپنے قبیلہ کے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ اپنے قریب کرتا، انہیں اپنامصاحب بناتا، انہیں بھی مضبوط کرتا اور ان کے ذریعے خود بھی طاقتور بنتا۔ یہی اقرباء پروری فتنوں کو جنم دیتی اور دوسرے قبائل کے بغاوت کردینے کاسبب بنتی۔ اس سب انتشار اور بگاڑ کا سبب فقط ایک امر تھا۔ اور وہ تھاخالص اسلامی روابط کو ترک کرنا جومسلمانوں کے حق میں ایک عظیم نعمت ہے۔ جس کا سب سے اعلی نمونہ ہجرت کے بعد حضرات مہاجرین وانصار رضی اللہ عنہم کی پاکیزہ زندگیوں میں نظر آتا ہے۔ اور اسلامی روابط کی بجائے جاہلی روابط کو اختیار کرنا جس کی قدرے تفصیل مذکورہ بالاسطور میں گز ر چکی ہے۔[2]
[1] سیرۃ عمرلابن عبدالحکم،ص: ۱۰۳۔۱۰۶
[2] التاریخ الاسلامی:۱۵۔۱۶/۱۲۴