کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 244
{اِِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِِخْوَۃٌ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْکُمْ وَاتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ } (الحجرات: ۱۰)
’’مومن توبھائی ہی ہیں، پس اپنے دو بھائیوں کے درمیان صلح کراؤ اور اللہ سے ڈرو، تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔‘‘
اور فرمایا:
{اَلْیَوْمَ یَئِسَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ دِیْنِکُمْ فَلَا تَخْشَوْہُمْ وَ اخْشَوْنِ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا فَمَنِ اضْطُرَّ فِیْ مَخْصَۃٍ غَیْرَ مُتَجَانِفٍ لِّاِثْمٍ فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ} (المائدۃ: ۳)
’’آج وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا، تمھارے دین سے مایوس ہوگئے، تو تم ان سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو، آج میں نے تمھارے لیے تمھارا دین کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمھارے لیے اسلام کو دین کی حیثیت سے پسند کر لیا، پھر جو شخص بھوک کی کسی صورت میں مجبور کر دیا جائے، اس حال میں کہ کسی گناہ کی طرف مائل ہونے والا نہ ہو تو بے شک اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔‘‘
مجھے یہ بھی بتلایا گیا کہ بعض لوگ ناجائز قسم کھانے کی ایک دوسرے کو دعوت دیتے ہیں اسلام میں ایسی کوئی بات نہیں اور جو قسم جاہلیت میں تھی اسلام نے اس کو اور پختہ کیا۔ پس دو فریق میں سے ایک اس بات کی دوسرے سے امید رکھتا ہے کہ وہ اس کی گناہ گار اور معصیت سے لبریز قسم کی پاسداری کرے اور ایسے معاہدے کی حفاظت کرے جس میں اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی ہے، یاد رکھو کہ ایسی قسم اٹھاتے ہی اور ایسا معاہدہ کرتے ہی قسم اٹھانے والا اسلام کو چھوڑ بیٹھتا ہے۔ جوبھی میرا یہ خط سن رہا ہے اور جس تک بھی میرے اس خط کا پیغام پہنچے میں اسے اس بات سے ڈراتا ہوں کہ وہ اسلام کے علاوہ کہیں او رپناہ ڈھونڈے، یا اللہ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کو چھوڑ کر کسی اور کو اپنا گہرا دوست اورہم راز بنائے۔ کہ میں ایسا کرنے سے بے حد ڈراتا ہوں اور بہت زیادہ یاد دلاتا ہوں اور متنبہ کرتا ہوں (کہ وہ ایسا کرنے سے ازحد گریز کرے) اور ان پر اس ذات کو گواہ بناتا ہوں جس کی مٹھی میں ہر جاندار کی پیشانی ہے۔ جو اپنے ہر بندے کے اس شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے اور میں نے تم لوگوں کو خط میں نصیحت کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں کی ، اس کے باوجود اگر مجھے کسی کے بارے میں اس بات کا علم ہو گیا کہ اس نے میری اس نصیحت کو ترک کر کے انہی عصبیت کے جذبات کو ہوا دی ہے اور وہ اس کے دفاع میں لگا ہے تو اللہ کی مدد سے میں اسے ذلیل کروں گا، چاہے وہ