کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 243
مرنے کو تیار ہوتے ہیں پھر معاشرے کے سب افراد امور کی حقیقت سمجھنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ لہٰذا جب بھی حضرات مصلحین و مبلغین اسلامی عرف کی صفائی اور اسے بدعا ت کی آلائشوں سے پاک کرنے کی کوشش شروع کرتے ہیں تو ان کے خلاف پروپیگنڈے کا طوفان بدتمیزی کھڑا کردیا جاتا ہے، ان کی اصلاحی کوششوں کو مسخ کرنے کی بھر پور کوشش کی جاتی ہے اور لوگوں میں اپنی موروثی اقدار پر جمے رہنے کی زبردست دعوت چلائی جاتی ہے، مزید برآں یہ کہ برسوں سے چلی آتی ان موروثی رسموں کی بابت لوگوں کی نگاہوں میں ایک گونہ تقدس بھی پیدا ہوچکا ہوتا ہے، جس کا ختم کرنا اتنا آسان نہیں ہوتا۔ لیکن اس سب کے باوجود جب اصلاحی کو ششوں کا آغاز معاشرے کے سب سے ذمہ دار طبقہ سے ہوتا ہے جو مسئولیت کے سب سے بلند درجے پر فائز ہوتا ہے جیساکہ سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے دور مسعود میں ہوا تو اس کے نتائج بے حد وسیع اور بہت جلد سامنے آنے لگتے ہیں کیونکہ اس مصلح کبیر پر رب تعالیٰ کی اس نعمت کی بھی ارزانی ہوتی ہے کہ رعایا اس کے امر کی مطیع و فرمانبردار ہوتی ہے۔ لہٰذا جب تک ایسا مصلح رب کی اطاعت پر قائم رہتا ہے اس کی سلطانی قوت معاشرے کے سدھا رنے میں مرکزی کردار ادا کرتی رہتی ہے۔[1]
۴۔ قبائلی عصبیت کا انکار:
آپ نے ضحاک بن عبدالرحمن کو خط لکھا کہ:
’’میرے خط لکھنے کا سبب یہ ہے کہ میرے سامنے چند دیہاتیوں کے ایک امر کا ذکر آیا ہے جو ایک نئی بات کا حکم دیتے ہیں جس سے ان کی جفا کھل کر سامنے آگئی ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ امر الٰہی کی بابت ان کا علم تھوڑا ہے، وہ لوگ اس امر کی بابت رب کی ذات سے شدید دھوکے میں ہیں، ان لوگوں نے اس امر کی بابت رب کی آزمائش کو بھلانے کی انتہاکردی ہے ان لوگوں نے رب کی اس نعمت کو بدل ڈالا جو ان کے مناسب نہ تھا۔وہ بات یہ ہے کہ ان لوگوں نے مضر اور اہل یمن کے ساتھ محاربہ کھڑا کر رکھا ہے۔ ان کا گمان یہ ہے کہ انہیں دوسروں پرفوقیت حاصل ہے۔
سبحان اللّٰہ! یہ لوگ رب کی نعمت کا شکر ادا کرنے سے کتنا دور ہیں جبکہ ہرقسم کی ذلت ورسوائی اور ہلاکت و بربادی کے کتنے قریب ہیں۔اللہ ان کا ستیاناس کرے! یہ لوگ کس درجے پر جا اترے ہیں اور کس امان سے نکل گئے ہیں اور کس بات سے جاچمٹے ہیں، لیکن یہ بات مسلم حقیقت ہے کہ بدبخت اپنی نیت کی بدولت بد بخت بنتا ہے اور اللہ نے جہنم کو بے کار پیدا نہیں کیا ان لوگوں نے رب کی کتاب میں اس کے اس فرمان کو نہیں پڑھا:
[1] التاریخ الاسلامی:۱۵، ۱۶/۱۲۱