کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 242
کیا ہے، وہ یہ کہ رب کی نافرمانی میں کسی کی اتباع نہیں۔ جب بعض امراء کو ان کے نفس بری امارت کو خوب خوشنما کرکے دکھائیں یا انہیں یہ سمجھائیں کہ وہ دوسروں کو رب کی نافرمانی کا حکم دیں یاان کے لیے رب کی نافرمانی کے رستے آسان کریں تو یاد رہے کہ رب کی نافرمانی میں ایسے حکام وامراء کی کوئی اطاعت نہیں۔ یوں معاشرے میں بدعات و خرافات کے گھس آنے کے ایک بڑے اور اہم سبب کا ازالہ ہوجائے گا۔ وہ یہ کہ امت کے ذمے رب کی نافرمانی کی بابت امراء کی کوئی اطاعت نہیں۔ لہٰذا جب حکام کی اطاعت کی حدود کو رب کی اطاعت کے ساتھ مربوط کر دیا جائے گا تو معاشرے میں بدعات پھیلانے کی بابت نفسانی خواہشات کی تاثیر ختم ہوجائے گی اور پھر بات چلے گی توصرف اہل صلاح کی چلے گی۔ اس کے بعد آپ نے یہ بیان کیاکہ یہ جو لوگوں میں معروف ہے کہ جو ظالم امام کے ظلم سے بچنے کے لیے فرار ہوجاتا ہے اسے نافرمان اور گناہ گار سمجھا جاتا ہے، اس نظریے کی شریعت کی نگاہوں میں کوئی حیثیت نہیں۔ کیونکہ اس نے تو امام کے ظلم سے بچنے کے لیے محض ایک سبب اختیار کیا ہے۔معصیت کا مرتکب کہلانے کا زیادہ مستحق تو وہ ہے جوظلم برپا کرتا ہے۔ ایک خلیفہ ہونے کے ناطے آپ کا یہ کہنا اس بات کی دلیل ہے کہ آپ حظ نفس اور قرابتی عصبیت کے جذبات سے خود کو خالی کر چکے تھے اور آپ کا ہر عمل خالص اللہ کے لیے تھا۔ اس کے بعد آپ ایک ایسے معاشرے کی صورت حال پر بحث کرتے ہیں جس میں عادت اور دین اور سنت و بدعت ایک دوسرے میں ایسے خط ملط اور گڈ مڈ ہوگئے ہیں کہ لوگ رائج عادات، رسوم، رواج اور جابجا پھیلی بدعات کو ہی دین سمجھنے لگتے ہیں، چنانچہ پھر اسی مختلط ماحول میں معاشرے کے افراد پروان چڑھتے ہیں، نومسلم عجمیوں کی بھی انہی رجحانات پر تربیت ہونے لگتی ہے اور جو اعرابی ہجرت کر کے ایسی مسلم سوسائٹی میں آتے ہیں وہ بھی انہی عادات و بدعات کو دین باور کرنے لگتے ہیں۔ جب کسی مسلم معاشرے کا عرف خلط ملط ہوجاتاہے تووہاں چپکے چپکے دبے قدموں جاہلیت کی بعض رسمیں اور عادتیں اسلامی عرف میں سرایت کرنے لگتی ہیں۔ یہ بات مسلم معاشرے کے افراد کو بجا طو پر متاثر کرتی ہے حتی کہ رسوم جاہلیت کی محبت ان کی رگ وپے میں پیوست ہونے لگتی ہے اوراب وہ اپنی خواہشات نفس پرسنت سے زیادہ چلنے لگتے ہیں۔ چاہے وہ خواہشات دین سے کتنی ہی منحرف کیوں نہ ہوں۔ پھر جب ایک مسلم معاشرہ ایسے خلط ملط ماحول کے سانچے میں ڈھل جاتا ہے تو مصلحین کے لیے اسلامی معاشرتی عرف کو برسوں سے قدم جمائے اور معاشرے کی جڑو ں میں بیٹھی ان جاہلی رسومات و عادات سے خلاصی دلانا بے حد کٹھن اور دشوار ہوجاتا ہے۔ کیونکہ اب ہر بگاڑ اور انحراف کے بے شمار اعوان و انصار پیدا ہوچکے ہوتے ہیں جو ان عادات و بدعات کی حفاظت اور نصرت و تائید کے لیے ہر وقت مستعد اور لڑنے