کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 241
۳۔ غلط مفاہیم کی تصحیح واصلاح:
آپ نے ایک خطبہ میں ارشاد فرمایا:
’’ امابعد! اے لوگو! تمہارا عرصئہ حیات کچھ زیادہ دراز نہیں ہے اور نہ قیامت تم لوگوں سے دور ہے۔ پس جس کو بھی موت نے آلیا اس کی قیامت قائم ہوگئی۔جس دن نہ تو وہ کسی بات کا عذر پیش کر سکے گا اور نہ کسی خوبی میں (نیکی کر کے) اضافہ ہی کرسکے گا۔سن لو کہ سنت کی مخالفت میں خیر نہیں، رب کی معصیت میں کسی کی اطاعت نہیں۔ خبردار ! تم لوگ امام کے ظلم سے بھاگنے والے کو نافرمان سمجھتے ہو، حالانکہ ظالم امام نافرمانی کیے جانے کا زیادہ مستحق ہے۔ خبردار! میں ایک ایسی بات کی اصلاح کی کوشش کر رہا ہوں جس پر اللہ ہی مدد کرسکتا ہے، بوڑھے اس بات پر مرگئے، بچے اس پرجوان ہوگئے، عجمی اس میں فصیح ہوگئے اور دیہاتیوں نے اس پر ہجرت کی یہاں تک کہ اس کو دین سمجھ لیا اور اب وہ اس کے علاوہ کو حق ہی نہیں سمجھتے۔‘‘
پھر فرمایا: ’’میں یہ چاہتا ہوں کہ تمہارے پاس مال و اسباب کی کثرت ہو مگر اس کے حق کے ساتھ، ولاقوۃ الا باللّٰہ۔‘‘[1]
سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے اس خطبہ میں یہ ذکر کیاہے کہ قیامت قریب آگئی ہے، وہ یوں کہ جو بھی موت کے منہ میں داخل ہوگا اس کی قیامت شروع ہوجائے گی۔ اس لیے آدمی کوچاہیے کہ وہ اس موت کی طرف نظر یں جمائے رکھے جو کسی بھی لمحہ اچانک آجائے گی۔ اس وقت آدمی نہ تو اپنے ان برے اعمال کا کوئی عذر پیش کر سکے گا جنہوں نے اس کا اعمال نامہ سیاہ کر رکھا ہوگا اورنہ کوئی نیک عمل کرکے اپنے اعمال نامہ کو روشن ہی کرسکے گا۔ اور وہ ایک ایسے وقت میں پشیمان ہوگا جب یہ پشیمانی بے سود ہو گی کہ اس نے اپنی زندگی کے ان ایام میںـ کوئی نیک عمل اور سچی توبہ کیوں نہ کی جب وہ توبہ اور عمل صالح کا توشہ اکٹھا کرنے پر قادر تھا۔
پھرآپ نے یہ بیان کیا کہ سلامتی صرف اور صرف اتباع سنت میں ہے۔ اور یہ عمل صالح کے دوبنیادی ستونوں میں سے ایک کابیان ہے، وہ بنیادی ستون ہیں اخلاص اور اتباع سنت۔ یہاں سے آپ یہ بیان کررہے ہیں کہ معاشرے کے بگاڑ کی اصلاح اتباع سنت سے ہوگی اوریہ آپ نے اس لیے فرمایا کیونکہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زریں دور کے ختم ہونے کے بعد معاشرے میں طرح طرح کی بدعات نے جنم لے لیا تھا اور بعض ان والیوں نے فساد برپا کر رکھا تھا جو ان سنتوں کے درپے تھے جوان کی خواہشات سے متصادم تھیں۔
اس کے بعد آپ بتلاتے ہیں کہ بدعات کے پھیلائو کی روک تھام اور امور کے بگاڑکی اصلاح کا رستہ
[1] سیرۃ عمرلابن عبدالحکم،ص: ۴۳