کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 240
رخصت ہوگئے۔‘‘ [1] ۲۔ لوگوں کو آخرت یاد دلانا: ایک دن آپ نے لوگوں میں خطبہ ارشاد فرمایا جس میں فرمایا: ’’میں نے تم لوگوں کو کسی دنیاوی امر کے لیے اکٹھا نہیں کیا بلکہ میں نے تمہاری آخرت اور اس بات پر غور کیا جس کی طرف تم سب کے سب جانے والے ہو، پس میں نے دیکھا کہ اس کی تصدیق کرنے والا بے وقوف اور تکذیب کر نے والا ہلاک ہے۔‘‘ بس اتنی بات فرما کر منبر سے اتر آئے۔[2] یہ خطبہ از حد مختصر ہونے کے باوجود بے حد بلیغ ہے۔ کیونکہ یہ موت کے بعد انسان کے انجام کا ایک زندہ تذکرہ ہے، چنانچہ جو شخص موت کے بعد زندہ کر کے اٹھائے جانے پر اس سے پہلے قبر کے عذاب و ثواب پر اور اس کے بعد حساب کتا ب پر، پھریا تو ہمیشہ کے عذاب پر اور یا پھرہمیشہ کے نعمت و ثواب پر ایمان رکھنے کے باوجود ان سب باتوں کی قرار واقعی اور کماحقہ تیاری نہیں کرتا جو اس دن کے لیے کافی ہو تو بلاشبہ وہ نرااحمق ہے کہ اس نے اس بات پر ایمان رکھنے کے باوجود کہ مرنے کے بعد کی زندگی حق ہے پھر بھی اپنے مستقبل کی تیاری کے لیے اپنی عقل کو استعمال نہ کیا۔[3] ایک اور خطبہ میں لوگوں کو موت اور آخرت کی یاد دلاتے ہوئے آپ کہتے ہیں : ’’انسان ہمیشہ کے لیے پیدا کیا گیا ہے لیکن ایک دنیا سے دوسری دنیا کے لیے۔‘‘ چنانچہ آپ فرماتے ہیں : ’’بے شک تم لوگ ہمیشہ کے لیے پیدا کیے گئے ہو لیکن تم ایک دار سے دوسرے دار کی طرف منتقل ہوگے۔‘‘[4] ایک خطبہ میں فرماتے ہیں: ’’اے لوگو! تمہیں دنیا میں ملنے والی مہلت دھوکے میں نہ ڈال دے، تھوڑے عرصہ کی ہی بات ہے کہ تم یہاں سے منتقل کردئیے جائو گے اور تم ایک دوسری دنیا کی طرف کوچ کرو گے۔ اے اللہ کے بندو! تمہیں اللہ کا واسطہ ہے کہ اپنے بارے میں فکر کرو۔ اس سے پہلے کہ موت آجائے۔ اپنی جانوں کی فکر کی طرف لپکو، تم پر مدت درازنہ ہو جائے کہ جس سے تمہارے دل سخت ہوجائیں اس قوم کی طرح جنہیں اپنا حصہ پالینے کی طرف بلایا گیا۔، مگر مہلت ملنے، باوجود وہ اس سے عاجز رہے۔ پس آخرت میں جاکر انہیں اپنی اس درماندگی پر نادم ہونا پڑا۔‘‘[5] سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے خطبے موت کی یاد اور آخرت کی تیاری کے تذکروں سے معمور ہیں۔ ہم نے بطور نمونہ چند خطبات کو ذکر کیا ہے۔
[1] طبقات ابن سعد: ۵/۳۴۲ [2] سیرۃ عمرلابن عبدالحکم،ص:۴۲ [3] التاریخ الاسلامی، ۱۵،۱۶/۱۱۸ [4] الکتاب الجامع لسیرۃ عمر: ۲/۴۴۸ [5] الکتاب الجامع لسیرۃ عمر:۲/۴۴۹