کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 24
ذمہ داریاں نبھانے کے لیے آپ انہیں جو بھی نصیحت کرتے یہ علماء اس کو پوری توجہ سے سنتے اور بسروچشم قبول کرتے اور خلافت کے مختلف امور اور مناصب کو سنبھالنے کے لیے کمر بستہ ہوجاتے۔ میں نے اس کتاب میں موصوف کے عہد کے اور خلافت امویہ کے عہد کے مدارس علمیہ کے بارے میں بھی گفتگو کی ہے جیسے شام، حجاز عراق اور مصر کے مدارس … وغیرہ۔ اس بابت تابعین کے تفسیری منہج، سنت نبویہ کی بابت ان کی خدمت اور حدیث کی تدوین کی بابت خود حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی خدمات اور روشن کردار پر بھی سیر حاصل کی گفتگو کی ہے۔ میں نے حضرات تابعین کے تزکیہ وسلوک کے منہج کی طرف بھی اشارہ کیا ہے اور اس بابت حضرت حسن بصری کے مدرسہ کو بطور مثال کے ذکر کیا ہے۔ چنانچہ حضرت حسن بصری رحمہ اللہ کے مدرسہ اور اس مدرسہ کے مشہور زمانہ شاگردوں ایوب سختیانی، مالک بن دینار، اور محمد بن واسع کے حالات زندگی پر بھی گفتگو کی ہے۔ میں نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ جناب حسن بصری رحمہ اللہ اعتزال سے بری ہیں ۔ اور بتلایا ہے کہ حسن بصری رحمہ اللہ کا جناب عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے ساتھ بے پناہ تعلق تھا اور ان کی سیّدنا عمر رحمہ اللہ کے ساتھ خط وکتابت بھی رہتی تھی۔ یہ خطوط بتلاتے ہیں کہ حسن بصری کی نگاہوں میں سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ ایک عادل امام کی حیثیت رکھتے تھے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے قسطنطنیہ کا حصار کیوں رفع کیا اور اس کے کیا اسباب تھے اس بابت میں نے جناب سیّدناعمر رحمہ اللہ کے موقف کوبھی ذکر کیا ہے۔ میں نے یہ بھی بیان کیاہے کہ سیّدنا عمر ِ رحمہ اللہ نے دعوت کا کس قدر اہتمام کیا حتی کہ آپ نے باقاعدہ یہ قانون منظور کیاکہ علماء اور مبلغین دعوت کا فریضہ سرانجام دینے کے لیے اپنی مالی ذمہ داریوں سے سبکدوش رہیں گے اور ان کے گھر بار کے اخراجات خلافت کے ذمہ ہوں گے تاکہ وہ اطمینان قلب کے ساتھ علم کی نشرو اشاعت اور اس کی تعلیم میں مصروف رہیں ۔ اور امت مسلمہ میں علم کی اہمیت کو اجاگر کریں ۔ آپ نے شمالی افریقہ اور دوسری اقالیم میں ان علماء کو بھیجا تاکہ وہ لوگوں کی قرآن وسنت کے مطابق تعلیم وتربیت کرسکیں ۔ آپ نے ہند کے حکمرانوں کو دعوتی خطوط لکھ بھیجے۔ آپ لوگوں کو اسلام میں داخل ہونے کی بھرپور ترغیب دیتے تھے۔ میں نے ایک الگ فصل میں اس موضوع پر بھی گفتگو کی ہے کہ کس طرح آپ نے مالی اصلاحات کیں اور اس بابت کس قدر حکیمانہ سیاست کو اپنایا۔ آپ نے عدل کا پرچم بلند کیا، ظلم وعدوان کو ختم کیا۔آپ کے اقتصادی اہداف کیا تھے ان کو بھی بیان کیا ہے۔ آپ نے سرکاری آمدنی اور سرکاری خزانے کی منصفانہ تقسیم کی تنظیم نوکی۔ اقتصادی استحکام وترقی اور معاشرتی خوشحالی کی منظم اصلاحات کیں ۔ میں نے اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ آپ نے خلافت میں ترقی کی مناسب فضا پیدا کی۔ حق