کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 239
مجاہر بالاثم کے حق میں بے حد سخت اور شدید ہیں، آپ نے یہ بھی بیان کیاکہ رب تعالیٰ کی حرمتوں کو پامال کرنے والوں پر سختی کرنا اور ہاتھ اور زبان سے ان کے افعال پر نکیر کرنا جہاد فی سبیل اللہ میں داخل ہے۔ چاہے وہ لوگ بے حد قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں۔ آپ نے جہاد کے معنی میں اس وسعت وگنجائش کے دلائل بھی اس خط میں ذکر کیے جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے: {یٰٓاََیُّہَا النَّبِیُّ جَاہِدِ الْکُفَّارَ وَالْمُنَافِقِیْنَ وَاغْلُظْ عَلَیْہِمْ وَمَاْوَاہُمْ جَہَنَّمُ وَبِئْسَ الْمَصِیْرُ} (التحریم:۹) ’’اے نبی ! کفار اورمنافقین سے جہاد کر اور ان پر سختی کر اور ان کی جگہ جہنم ہے اور وہ برا ٹھکانا ہے۔‘‘ منافقوں کے ساتھ جہادیہ ہے کہ ان کے اعمال پرانکار کیا جائے، اوران کے ساتھ معاملات میں شدت سے کام لیاجائے۔[1] قارئین کرام! سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے اس خط میں ایک اور غلط مفہوم کی بھی اصلاح کی ہے وہ یہ کہ جو آدمی برائیوں پر انکار نہ کرے اسے بے حد خوش اخلاق، سادہ، اور اپنے آپ میں مست اور اپنی اصلاح میں کوشاں شخص باور کیا جاتا ہے حالانکہ گناہ گاروں اور مخالفوں کو تواز حد توجہ، شفقت اور رحمت کی ضرورت ہوتی ہے اور اس شفقت و توجہ کااظہار صرف ایک صورت میں ہو سکتا ہے، وہ یوں کہ ان بگڑے ہوئوں کی اصلاح کی کوشش کی جائے اور اپنے رویہ سے ا س قول کی تردید کی جائے کہ وہ قلیل التکلف اور سادہ ہے اور اسے صرف اپنی فکر ہے بلکہ اسے دوسروں کی بھی فکر ہے۔ وہ انہیں جہنم سے نکال کرجنت کے اعلی درجات تک پہنچانا چاہتا ہے۔ اوراس کا صرف اپنے نفس کی طرف توجہ دینا تو دراصل اسے ہلاکت میں ڈالنا ہے کیونکہ معصیت پر سکوت کرنا اور نکیر نہ کرنا خود قابلِ مؤاخذہ معصیت ہے جو بسا اوقات جہنم میں جانے کا سبب بن جاتی ہے۔ اورعوام کا یہ مفہوم کہ خاموش رہنے والا قلیل التکلف ہے تو جان لیجئے کہ اس نے تو ایک عظیم امر کابار خود اپنے کندہوں پر دھر لیا ہے، وہ یہ کہ اس نے رب تعالیٰ کے عائد کردہ فریضہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی مخالفت کی، جس کو سرانجام دینا اس کے ذمے واجب تھا۔[2] غور سے دیکھا جائے تو سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا لکھا یہ خط عوام کی اصلاح کے لیے ایک نصیحت نامہ ہے۔ جیساکہ ابراہیم بن جعفر اپنے والد سے نقل کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ : ’’ابوبکر بن محمد بن عمرو بن حزم کے پاس سیّدناعمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا جو خط بھی آتا تھا اس میں رد مظالم یا احیائے سنت، اماتت بدعت یا تنخواہوں یا انعامات کی تقسیم و تقدیر کی بابت کوئی نہ کوئی حکم ضرور ہوتا تھا۔ یہاں تک کہ آپ اس دنیا سے
[1] التاریخ الاسلامی، ۱۵،۱۶/۱۳۰ [2] ایضًا