کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 238
{اَعِزَّۃٍ عَلَی الْکٰفِرِیْنَ یُجَاہِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَ لَا یَخَافُوْنَ لَوْمَۃَ لَآئِمٍ } (المائدہ:۵۴)
’’کافروں پر بہت سخت، اللہ کے راستے میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے۔‘‘
میری عمر کی قسم! حرام کے مرتکبین پر ہاتھ اور زبان کے ساتھ سختی کرنا اور ان کے خلاف جہاد کرنا، چاہے وہ ہمارے ماں باپ ہی کیوں نہ ہوں، جہاد فی سبیل اللہ میں داخل ہے۔ بے شک اللہ کا رستہ اس کی طاعت ہے۔ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ بے شمار لوگ محض ملامت کے ڈر سے امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے فریضہ سے بیٹھ رہے ہیں تاکہ انہیں خوش اخلاق، بے تکلف، سادہ اور اپنے کام سے کام رکھنے والا ایک بے ضرر انسان کہا جائے، بے شک اللہ کے نزدیک یہ لوگ خوش اخلاق نہیں۔ بلکہ یہ بدترین اخلاق کے مالک لوگ ہیں اور جو لوگ ایسے ہیں وہ اپنے نفس کی اصلاح کی طرف متوجہ نہیں، بلکہ یہ لوگ خود اپنے نفسوں کو پیٹھ دے کر بھاگنے والوں میں سے ہیں اور جس تکلیف سے بچنے کے لیے انہوں نے امر بالمعروف و نہی عن المنکرکے فریضہ کے ترک کار ستہ اپنایا ہے اس تکلیف میں یہ گرفتار ہو کر رہیں گے کیونکہ ان لوگوں نے اس حال کو پسند کر لیا جس کا اللہ نے انہیں حکم نہ دیا تھا، اور اللہ نے انہیں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے فریضہ کو اپنانے کاحکم دیاتھا جس کو انہوں نے ترک کردیا۔‘‘[1]
سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے اس اہم ترین خط میں رب تعالیٰ کی اس سنت کو بیان کیا ہے جس میں کبھی تخلف نہیں ہوتا اور وہ سنت یہ ہے کہ جو معاشرہ بھی کبائر کا ارتکاب کھلے عام کرنے لگتا ہے اور اس میں مفسدین دندناتے پھرتے ہیں، پھر اہلِ اصلاح نہ تو انہیں برائیوں سے روکتے ہیں اور نہ ان کی برائیوں پر نکیر کرتے ہیں تو رب تعالیٰ انہیں تین باتوں میں سے ایک میں ضرور گرفتار کرتا ہے، یا تو انہیں خود عذاب دیتا ہے، یا اپنے بندوں میں سے کسی کے ذریعے جس کو وہ اس کے لیے چن لے عذاب دیتا ہے اور بسا اوقات یہ لوگ ظالم و جابر بھی ہوتے ہیں جن کے ذریعے اللہ دوسرے فساق وفجار اور نافرمانوں سے انتقام لیتا ہے۔ یا پھر رب تعالیٰ ان پر ذلت و خوف اور بھوک اور افلاس اور طرح طرح کے مسائل ومصائب کو مسلط کر دیتا ہے۔
اس خط میں آپ نے یہ امر بھی واضح کیا کہ کھلم کھلا گناہ کرنے والوں پر سکوت کرلینا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی سنت اوران کا عمل نہیں تھا۔بلکہ رب تعالیٰ نے تو ان کی یہ صفت بیان کی ہے کہ وہ دین کے مخالفین اور
[1] سیرۃ عمرلابن عبدالحکم،ص: ۱۶۰