کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 237
کے نقمت و عذاب سے بچے رہتے ہیں جب تک کہ وہ اپنے میں سے اہل باطل کا خاتمہ کرتے رہیں اور ان میں حرام کام کھلے بندوں نہ کیے جاتے ہوں۔ اور اگر ان میں سے کوئی کھلم کھلا کسی حرام فعل کا ارتکاب کرتا ہے تو وہ اسے اس کی سزا دیتے ہوں۔ لیکن جب حرام کام سر عام کیے جانے لگیں اور ان کے اہل صلاح ان حرام کاموں سے نہ روکیں تو آسمانوں سے اہل زمین پر رب کے عذاب نازل ہونے لگتے ہیں جن سے نہ گناہ گار بچتے ہیں اور نہ گناہوں پرمداہنت کرنے والے ہی ان عذابوں سے محفوظ رہتے ہیں، اور ہوسکتا ہے کہ یہ مداہنت کرنے والے چاہے ان اہلِ معاصی کے مخالف ہی کیوں نہ ہوں ان کے ساتھ مارے جائیں۔ کیونکہ رب تعالیٰ نے اپنی کتابوں میں ان لوگوں کا قصہ بیان کیا ہے جن کو اس نے ہلاک کیا، میں نے ان آیات میں سے کسی آیت میں یہ نہیں سنا کہ اس نے ان مداہنین میں سے (بھی) کسی کو (ہلاک ہونے سے) بچایا ہو الا یہ کہ وہ نہی عن المنکر کا فریضہ سرانجام دیتے ہوں۔ پھررب تعالیٰ ان مرتکبین کبائر پر اپنے پاس سے یا اپنے بندوں میں سے جس کے ہاتھوں سے چاہے ذلت و خوف اور نقمت و عذاب کو مسلط کردیتا ہے۔ کیونکہ رب تعالیٰ بسا اوقات ظالم کو ظالم پر اور فاجر کو فاجر پر مسلط کر کے بدلہ لیتا ہے۔ پھر دونوں فریق اپنے اپنے اعمال کی بد ولت جہنم میں داخل ہو جاتے ہیں، ہم اس بات سے اللہ کی پناہ میں آتے ہیں کہ وہ ہمیں ظالموں میں سے یا ظالموں کے حق میں مداہنوں میں سے بنائے۔ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ اب تو لوگوں میں فسق و فجور عام ہوگیا ہے، اب تمہارے شہروں میں فاسقوں کو امن ہے اور وہ دندنا کر ڈنکے کی چوٹ پر ان حرام کاموں کا ارتکاب کرتے ہیں جو رب تعالیٰ کو بالکل پسند نہیں۔ اورنہ رب تعالیٰ ان کاموں میں مداہنت کرنے کو ہی پسند فرماتے ہیں۔ اور علی الاعلان ایسے حرام کام وہ قوم کبھی نہیں کرتی جو اللہ کی عظمت کا اعتقاد رکھتی ہے اور اللہ کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈرتی۔ یہ لوگ ان فاجروں سے تعداد میں بھی زیادہ ہیں اور عزت میں بھی زیادہ ہیں۔ بے شک تمہارے اسلاف ایسے نہ تھے اور نہ ان پر ایسی باتوں کی بدولت رب کی نعمت پوری ہوئی تھی۔ بلکہ وہ تو رب تعالیٰ کے اس ارشاد کے جیسے تھے۔ {اَشِدَّآئُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآئُ بَیْنَہُمْ} (الفتح:۲۹) ’’وہ کافروں کے حق میں توسخت ہیں اور آپس میں رحم دل۔‘‘ اور فرمایا: