کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 236
میں تم سے زیادہ چھوٹے بڑے گناہوں سے دور رہنے والا جوان کبھی نہیں دیکھا۔‘‘ [1] اور ایک دفعہ تو یہاں تک فرمایا: ’’اللہ کی قسم! اگر یہ بات نہ ہوتی کہ عبدالملک کے امر سے مجھے وہ باتیں اچھی لگنے لگتیں جو ایک باپ کو اپنے بیٹے سے اچھی لگتی ہیں تو میں عبدالملک کو خلافت کا اہل دیکھتا تھا۔‘‘[2] ایک روایت میں ہے کہ عبدالملک کی وفات پر آپ اس کی قبر پر کھڑے ہوگئے اور اس کی تعریف بیان کرنے لگے۔ اس پر ایک آدمی بول اٹھا: ’’اے امیر المومنین! (آپ جو اس کی اس قدر تعریف کر رہے ہیں تو ) کیا وہ زندہ رہتا تو آپ اسے اپنا ولی عہد بنا لیتے؟‘‘ آپ نے جواب دیا، نہیں۔ وہ آدمی کہنے: وہ کیوں حالانکہ آپ تو اس کی اس قدر تعریف فرما رہے ہیں؟اس پر آپ نے فرمایا’’مجھے اس بات کا ڈر تھا کہ مجھے عبدالملک کی وہ باتیں بھی اچھی لگنے لگتیں جو (عموماً) ایک باپ کو اپنے بیٹے سے اچھی لگتی ہیں (یعنی جیسے باپ بیٹے کی ہر اچھی بری بات کو ٹھیک ہی سمجھتا ہے کہیں اس کو ولی عہد بنا کر میں بھی ایسا نہ کرنے لگوں کہ مجھے عبدالملک کی ہر اچھی بری بات اچھی لگنے لگے)۔ میمون بن مہران کہتے ہیں: ’’میں نے کسی گھر میں ایسے تین آدمی نہیں دیکھے جو عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ عبدالملک اور ان کے خادم مزاحم سے زیادہ بہتر ہوں (جو ایک گھر میں رہتے تھے)۔ بے شک یہ اس تربیتی اور علمی منہج کا نتیجہ تھاجو سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت کے لیے اختیار کیاتھا۔ لوگوں کے ساتھ معاملات سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی زندگی کے اس پہلو کو ہم درج ذیل عناوین کے تحت بیان کریں گے: ۱۔ معاشرے کے اصلاح کا اہتمام: سیّدنا عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ کو معاشرے کی اصلاح کی بے حد فکر تھی۔ آپ معاشرے میں پھیلی برائیوں کا خاتمہ کرنا چاہتے تھے۔ چنانچہ اس بابت آپ نے اپنے ایک والی کو ایک بے حد طویل اور بلیغ خط لکھا۔ ہم اختصار اور اہمیت کے پیش نظر اس طویل خط کے چند اقتباسات نقل کرتے ہیں جو بے مفید ہیں، آپ اس خط میں لکھتے ہیں: ’’امابعد! بے شک جب بھی کسی قوم میں منکرات کا ظہور ہوتا ہے، پھران کے اہل صلاح ان برائیوں سے اپنی قوم کی کومنع نہیں کرتے، مگر یہ کہ رب تعالیٰ اس قوم پر اپنے پاس سے یااپنے بندوں میں سے جس کے ذریعے چاہے عذاب نازل کرتا ہے۔ لوگ اس وقت تک رب تعالیٰ
[1] مجموعۃ الرسائل :۲/۴۹۹ [2] ایضًا