کتاب: سیدنا عمر بن عبدالعزیز شخصیت اور کارنامے - صفحہ 235
لوٹ آئے۔[1]
اس کے بعد آپ نے والی کو فہ کو خط لکھ کر عبدالملک پر نوحہ کرنے سے منع کر دیا جیسا کہ اس وقت بادشاہوں اور ان کی اولادوں کے مرنے پر لوگوں کی عادت تھی کہ وہ بے حدنوحہ کرتے تھے۔ چنانچہ آپ نے والی کوفہ کو بھیجے گئے خط میں یہ لکھا: ’’ عبدالملک بن امیر المومنین اللہ کے بندوں میں سے ایک بندہ تھا۔ اللہ اس کے ساتھ اچھا معاملہ کرے، اور اس کی بابت اس کے باپ کے ساتھ بھی اچھا معاملہ کرے۔ جب تک اللہ نے چاہا اللہ نے اسے زندہ رکھا اور جب چاہا اس کو اپنے پاس بلالیا۔ اور اب وہ عالم برزخ میں ہے۔ ہم اللہ سے امید کرتے ہیں کہ وہ اس کے ساتھ اچھا معاملہ کرے، اور میں اس بات سے اللہ کی پناہ میں آتا ہوں کہ مجھے کسی چیز سے ایسی محبت ہو جو اللہ کی محبت کے خلاف ہو کیونکہ ایس محبت آزمائش کے خلاف ہے جس میں اس نے مجھے مبتلا کیا ہے اور اس کے اس نعمت و احسان کے بھی خلاف ہے جو اس نے مجھ پر کر رکھا ہے۔‘‘
آگے لکھتے ہیں: ’’پس میں نے چاہا کہ یہ بات میں تمہیں لکھ بھیجوں اور تمہیں رب کی اس قضاء کی بابت بتلا دوں۔ میں نہیں جانتا کہ تم سے پہلے کسی نے عبدالملک پر نوحہ کیا ہے یا کہیں چند لوگوں نے جمع ہو کر اس کی موت کا سوگ منایا ہے اور نہ میں نے کسی دور نزدیک کے شخص کو اس بات کی رخصت دی ہے۔ اس بابت مجھے اللہ کی کفایت پر چھوڑ دو، اور میں اس بابت تمہیں ملامت نہ کروں گا۔ ان شاء اللہ… والسلام علیک[2]
اور ایک روایت میں آتا ہے کہ اپنے بیٹے کی وفات پر آپ نے فرمایا: ’’اے میرے بیٹے ! تم ویسے ہی تھے جیساکہ رب تعالیٰ نے (بیٹوں کے بارے میں )فرمایا ہے :
{اَلْمَالُ وَ الْبَنُوْنَ زِیْنَۃُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا } (الکھف:۴۶)
’’مال اور بیٹے تو دنیا کی زندگی کی (رونق و ) زینت ہیں۔‘‘
میں امید کرتاہوں کہ آج تم ان باقیات صالحات (باقی رہ جانے والی نیکیوں ) میں سے ہوگئے جو ثواب کے لحاظ سے (تیرے پروردگار کے ہاں) بہت اچھی اور امید کے اعتبار سے بہت بہتر ہیں۔ اللہ کی قسم! مجھے اس بات کی خوشی نہیں کہ میں تمہیں پکاروں اور تم مجھے جواب دو۔‘‘[3]
لطف کی بات یہ ہے کہ ایسا زیرک، خدا شناس، آخرت شناس اور فہم و فراست ربانی کا مالک نوجوان عبدالملک، وفات کے وقت صرف انیس برس کا نوخیز جوان تھا۔[4] آپ اپنے بیٹے کی بے حد تعریف فرمایا کرتے تھے۔ ایک دن آپ نے اپنے بیٹے سے فرمایا:’’اے عبدالملک! میں تمہیں ایک بات کی خبر دیتاہوں اللہ کی قسم! میں نے تم سے زیادہ سنت کا پابند، تم سے زیادہ فقیہ، تم سے زیادہ قرآن کا قاری اور ایسی نوجوان
[1] مجموعۃ الرسائل لابن رجب الحنبلی:۲/۴۹۵
[2] ایضًا :۲/۴۹۶
[3] ایضًا :۲/۴۹۶
[4] مجموعۃ الرسائل :۲/۴۹۸